آئینوں میں عکس نہ ہوں تو Ø+یرت رہتی ہے

جیسے خالی آنکھوں میں بھی ÙˆØ+شت رہتی ہے

ہر دم دُنیا کے ہنگامے گھیرے رکھتے تھے

جب سے تیرے دھیان لگے ہیں فرصت رہتی ہے

کرنی ہے تو کُھل کے کرو انکارِ وفا کی بات

بات ادھوری رہ جائے تو Ø+سرت رہتی ہے

شہرِ سُخن میں ایسا کُچھ کر، عزت بن جائے

سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے ، عزت رہتی ہے

بنتے بنتے ڈھے جاتی ہے دل کی ہر تعمیر

خواہش کے بہروپ میں شاید قسمت رہتی ہے

سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں

رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے

موسم کوئی خُوشبو لے کر آتے جاتے ہیں

کیا کیا ہم Ú©Ùˆ رات گئے تک ÙˆØ+شت رہتی ہے

دھیان میں میلہ سا لگتا ہے بیتی یادوں کا

اکثر اُس Ú©Û’ غم سے دل Ú©ÛŒ صُØ+بت رہتی ہے

پھولوں Ú©ÛŒ تختی پہ جیسے رنگوں Ú©ÛŒ تØ+ریر

لوØ+ِ سُخن پر ایسے امجد شہرت رہتی ہے