بچے جب موت کے گھیراؤ میں چیخے
تو یہ سب نے دیکھا
ھفت افلاک تڑختے ھی چلے جاتے ھیں
ماؤں کی کوکھ جب اُجڑی...
تو فرشتوں کی قطاروں پہ قیامت ٹوُٹی
بہنوں نے بھائیوں کے خوُن میں ڈوُبے ھوئے آثار سمیٹے
تو بہت زور سے لرزا ھے نظامِ شمسی
مٹی کے کچے گھروندوں پہ سُلگتا ھُوا فولاد گرا ھے
تو دراڑیں نظر آنے لگیں ایوانوں میں
ذھنِ انسان کی آغوش نے یہ ملبہ سمیٹا ھے
تو ھر لفظ میں اِک لاش چلی آئی ھے
تم جو زندہ نظر آتے ھو
مگر مُردہ ھو
تم نے انسانوں کو "اشرف" کی بُلندیوں سے نشیبوں میں کچھ
اِس طرح سے دے مارا ھے
جیسے کوئی کوُڑا پھینکے
اور تاریخ وہ سفاک حقیقت ھے
رعایت نہیں کرتی
کہ وہ سچ بولتی ھے
"احمد ندیم قاسمی"