ایک انگریز محقق کو تحقیقی مقالے کے لیے موضوع ملا کہ جلیبی میں شیرہ کیسے بھرا جاتا ہے جب کہ اس میں کوئی سوراخ نہیں ہوتا۔
مرتا کیا نہ کرتا، وہ پاکستان آیا اور پوچھتے پوچھتے پھجے حلوائی کی دکان تک جا پہنچا اور دستِ سوال دراز کیا۔
پھجے نے اس کا سوال غور سے سنا اور پوری سمجھناکی سے سمجھا اور کہا: لاٹ صاحب کیا آپ کو جلیبی بنانی آتی ہے؟
سوٹڈ بوٹد انگریز کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ لیکن بمشکل منہ بند کرتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
پھجے حلوائی نے انگریزوں کے نظامِ تعلیم پر ناقابلِ اشاعت الفاظ میں لمبا چوڑا تبصرہ کیا اور امریکہ و برطانیہ کے درجات خوب بلند فرمائے۔ اس کی تقریرِ اس جملے پر ختم ہوئی کہ سرکار منہ دھونا ہے تو پہلے منہ تو لاؤ۔
انگریز پہلی فلائٹ سے واپس چلا گیا۔
اپنی خفت مٹانے کے لیے انگریزوں نے جلیبی کے بارے میں لطیفے بنانے شروع کر دیے۔ مثلًا یہ کہ جلیبی مونث ہوتی ہے یا مذکر؟ جواب دیا گیا کہ مونث ہوتی ہے کیونکہ یہ کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی لیکن ہوتی بہت میٹھی ہے۔
ایک حلوائی سے پوچھا گیا کہ کب سے جلیبیاں بنا رہے ہو؟ اس نے فخر سے بتایا کہ پچیس سال سے۔ کہا بڑے شرم کی بات ہے کہ پچیس سالہ تجربے کے باوجود تم سیدھی جلیبی نہیں بنا سکتے۔
انگریز جیسا کام چور اور احمق ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ یہ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں لیکن کام کرنے کا کہو تو ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ جو کام انھیں نہیں آتا یہ اسے سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ آپ ساری دنیا گھوم جائیے، آپ کو ایک بھی انگریز جلیبی بناتا ہوا نہیں ملے گا۔ یہ مریخ پر ضرور جاسکتے ہیں لیکن جلیبی جیسا شاہکار تخلیق کرنے کی صلاحیت ان میں کہاں۔