سمندر میں ایک جگہ ایسی ہے کہ جہاں سے آ ج تک جو بھی بحری جہاز گزرا ہے اُس کا کچھ اتہ پتا نہیں مل سکا۔ اس علاقے کی فضائی حدود میں سے جو ہوائی جہاز گزرا ہے اس کاکچھ اتا پتا نہیں مل سکا۔پانچ لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے سمندر کے اس ٹرائی اینگل کی فضائی اور بحری حدود میں اب تک سینکڑوں ہوائی اور بحری جہاز ہزاروں مسافروں سمیت گم ہو چکے ہیں۔یہ سلسلہ چار پانچ سو سال سے جاری ہے۔اس بنا پر اس سمندری حصے کو اور فضا کو جہازوں کا قبرستان قرارد دیا گیا ہے۔ دجال کا مرکز کہا جا رہا ہے۔دنیاکی واحد سپرپاور امریکہ کے قریب واقع ہونے کے باوجود کوئی ریسرچ اس کی اصل حقیقت یا عقدے کو نہیں کھول سکی۔سب سے پہلا حادثہ جس کا تحریری ثبوت ملتا ہے1780 میں ہوا جب برطانیہ کا ایک جنگی بحری جہاز پراسرار طور پر گم ہو گیا۔ اس کے بعد 1799میں ایک فرانسیسی جنگی جہاز340 افراد سمیت تباہ ہو گیا۔1789سے1824 کے درمیان امریکن نیوی کے کئی جنگی جہاز اس علاقے میں گم ہوئے۔ایک دفعہ بیک وقت چھ جہاز اس علاقے میں غرق ہو گئے۔1946ء سے اب تک ساٹھ سے زائد بحری جہاز اس ٹرائی اینگل میں گم ہوئے ان بڑے جہازوں کے علاوہ کئی چھوٹی کشتیاں اور ان کے مسافر بھی لقمہ اجل بنتے رہے ہیں لیکن ان کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔اس طرح اس پر اسرار علاقے پر تحقیقی شروع ہو ئی۔سائنس دانوں نے اس اسرار کو جاننے کی کئی کوششیں کیں۔ یہا ں تک کہ مشینری کو انسان کے جسم میں بھی سیٹ کر کے اس ایریا میں بھیجا لیکن اس حدود میں داخل ہوتے ہی ہر طرح کی مشینری بے کار ہو جاتی ہے اور پچھلے سب رابطے منقطع ہو جاتے ہیں۔اس علاقے میں جو بھی الیکٹرک یا سیٹلائٹ سگنل بھیجا گیا اس کا عکس یا ریکارڈ واپس نہیں آیا۔دنیا کو کوئی بھی غوطہ خور یا کوئی سیٹلائٹ سگنل اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں قطب نما کی سوئی رُک جاتی ہے ۔اس مقام سے وابستہ چند داستانیں اور مافوق الفطرت واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ جن کے باعث اس کو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے۔جدید دنیا کی تمام تر سائنسی اور تکنیکی ترقی برمودہ ٹرائی اینگل میں پائی جانے والی حقیقتوں سے ناآشنا ہے۔ماہرین جہازوں کی اس طرح کی پراسرار گمشدگی کو غیر یقینی موسم یا اچانک خوفناک طوفان گردانتے ہیں مگر دلچسپ اور حیران کن بات تو یہ ہے کہ تمام حادثات اُس وقت رونما ہوئے جب سمند بالکل پرسکون اور مطلع صاف تھا اور کسی بھی طوفانی جھکڑ چلنے کا اندیشہ تک نہ تھا۔اس علاقے میں ہوا بہت تیز چلتی ہے لیکن مطلع صاف رہتا ہے۔یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہاں پیش آنے والے حادثات میں موسم کی خرابی کا عنصر شامل ہے۔کچھ سائنسی نظرئیے کے تحت اس علاقے میں مقناطیسی کشش کسی وجہ سے اس قدر طاقت اختیار کر گئی ہے کہ وہ اپنی زد میں آنے والی ہر شے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور وہ واپس باہر نہیں آسکتی۔1969 ء میں امریکہ کی نیشنل ائیر لائینز کی پرواز نمبر27میامی جاتے ہوئے اس علاقے کے قریب سے گزری تو ایک ناقابلِ یقین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ طیارہ دس منٹ تک ریڈار سے گم رہا لیکن جب یہ دوبارہ ریڈار پر نمودار ہو تو طیارے میں نصب گھڑیاں اور مسافروں کے ہاتھوں پر بندھی ہوئی تمام گھڑیاں دس منٹ پیچھے تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ طیارہ اور مسافر اس عرصے کے دوران زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو گئے تھے۔روحانی علوم کے ماہرین کے مطابق برمودا ٹرائی اینگل کا علاقہ روحانی نظام میں ایڈ منسٹریشن کا مرکزی مقام ہے۔ یہ علاقہ ایسی روشنیوں کا مجموعہ ہے جسے انسانی آنکھ جذب نہیں کر سکتی۔ یہ روشنیاں بنفشی شعاعوں سے بھی زیادہ لطیف ہیں۔ روحانی علوم کے مطابق کائنا ت کی ہر شے نور یا روشنی کی بساط پر سفر کر رہی ہے۔ اور اس مخصو ص علاقے کے مطابق وقت کا یقین ہوتا ہے۔ مثلاِ برمودہ مثلث کے علاقے میں سے اگر کسی صورت فوری طور پر کوئی چیز باہر آ جائے تو عام زمین کے وقت میں دس سے بیس منٹ تک کا فرق ہو جائے گا۔ گردش کا قانون یہ ہے کہ جتنی رفتار تیز ہوگی اتنی ہی حرارت میں اضافہ ہو گا ۔ برمودہ مثلث میں چونکہ رفتار بہت زیادہ ہے۔ اس لئے وہاں جو چیز داخل ہو گئی ہے وہ حرارت میں تحلیل ہو کر روشنی میں تبدیل ہو جائے گی۔ملیشیا ائیر لائنز کی گمشدگی کے دوران جب کئی طرح کا شکوک کا اظہار کیا گیا تو برمودہ مثلث کی افسانوی کہانی بھی سامنے آئی۔ملائیشیا کا ایم ایچ 370 ملائشیا کے دالحکومت کوالالمپور سے چین کے شہر بیچنگ جا رہا تھا ۔جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب پرواز کے بعد غائب ہو گیا۔ اس پر 239 افراد سوار تھے جن میں سے اکثریت چینی باشندے تھے۔اس جہاز کو ڈھونڈنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں اس وقت بحیرہ جنوبی چین اور آبنائے ملاقا میں 43 جہاز اور 40طیارے تلاش کے عمل میں مصروف ہیں۔ چین کے وزیرِ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امید کی آخری کرن تک لاپتہ ملائیشیا ائیر لائنز کے جہاز کی تلاش جاری رکھیں گے۔