ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نُورِ ابد سے خالی!
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا!

ہم محبت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا!
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
کُنجِ ماضی میں ہیں باراں زدہ طائر کی طرح آسودہ
اور کبھی فتنہ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں
تورہیں سدّ نگاہ نیند کے بھاری پردے

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں!
ایسے تاریک خرابے کہ جہاں
دُور سے تیز پلٹ جائیں ضیا کے آہُو
ایک، بس ایک، صدا گونجتی ہو
شبِ آلام کی ”یاہو! یاہو!“

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا، سائے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے