نہ جانے کن اداؤں سے لبھا لیا گیا مجھےقتیل میرے سامنے چُرا لیا گیا مجھےکبھی جو ان کے جشن میں سیاہیاں بکھر گئیںتو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھےبراہِ راست رابطہ نہ مجھ سے تھا قبول انہیںلکھوا کے خط رقیب سے بلا لیا گیا مجھےجب ان کی دید کے لیے قطار میں کھڑا تھا میںقطار سے نہ جانے کیوں ہٹا لیا گیا مجھےمیں روندنے کی چیز تھا کسی کے پاؤں سے مگرکبھی کبھی تو زلف میں سجا لیا گیا مجھےسوال تھا وفا ہے کیا جواب تھا کہ زندگیقتیل پیار سے گلے لگا لیا گیا مجھے