مجھے اس زندگانی سے کوئی شکوہ نہیں لیکن
ذرا سی بےسکونی ہے
نجانے کیوں میرے دل میں
عجب اک خوف رہتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ میرے دل کے دروازے پہ
تیری یاد کی دستک میں وہ شدت نہیں باقی
بہت سی خاص باتیں ہیں
جو مجھ کو عام لگتی ہیں
میرے دل میں انھیں سن کر
کوئی طوفاں نہیں اٹھتا
تیری آنکھیں ، تیرا چہرہ
تیری آواز کی رم جھم
سبھی کچھ خواب لگتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
سنہری تتلیوں جیسے
وہ سب خوش رنگ سے سپنے
میرے لفظوں کے پھولوں پر
بہت دن سے نہیں بیٹھے
مجھے محسوس ہوتا ہے
سمے کی تیز لہروں نے
ہمارے ریت کے کچے گھروندے
توڑ ڈالے ہیں
مجھے ان تیز لہروں سے
سنہری تتلیوں جیسے
سبھی خوش رنگ سپنوں سے
کوئی شکوہ نہیں لیکن
ذرا سی بےسکونی ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
تمھارے دل کے دروازے پہ
میری یاد کی دستک
میری جاں اب نہیں ہوتی
میری جاں اب نہیں ہوتا
کہ میری یاد آئے تو
تمھاری آنکھ بھر آئے
دعائیں مانگتے لمحے
مجھے تم بھول جاتی ہو
مگر پھر بھی مجھے تم سے
کوئی شکوہ نہیں لیکن
عجب سی بےسکونی ہے
عجب اک خوف ہے دل میں میں تم کو بھول جاؤں گا