3 Ramdan-Urs Hazrat Fatima Radi Allahu Taala Anha
خاتونِ جنت حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا
خلاصہ:
حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، رحمتِ عالمیان،سرورِ کون ومکان،سید انس وجان، محبوبِ رحمن عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے : فاطمہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا)میرے جسم کا ٹکڑا ہے ، فاطمہ انسانی حور ہے ۔
تاریخِ ولادت باسعادت ومقامِ ولادت:
شہزادیٔ رسول، حضرت خاتونِ جنت،حضرت سیدۃ النساء سیِّدتنافاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالٰی عنہا سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم کی چوتھی صاحبزادی ہیں، اعلانِ نبوت سے قبل یا بعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ولادت ہوئی۔
فضائل کریمہ:
اﷲ اکبر! ان کے فضائل و مناقب کاکیا کہنا؟ ان کے مراتب و درجات کے حالات سے کتب احادیث کے صفحات مالامال ہیں۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ سیدۃ نساء العالمین(تمام جہان کی عورتوں کی سردار) اور سیدۃ نساء اہل الجنۃ (اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار) ہیں۔ ان کے حق میں ارشاد نبوی ہے کہ فاطمہ میری بیٹی میرے بدن کی ایک بوٹی ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(مشکوۃ المصابیح، ۵۶۸، زرقانی ، ج۲، ص۲۰۴)اللہ عزوجل قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجْسَ اَہۡلَ الْبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیۡرًا(الاحزاب: ۳۲)ترجمۃٔ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔ سورہ الاحزاب کی آیت کریمہ نمبر۳۲کے تحت صدر الافاضل، بدر الاماثل سید مولانا نعیم الدین مراد آبادی ارشاد فرماتے ہیں: یعنی: گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو ۔ اس آیت سے اہلِ بیت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اوراہلِ بیت میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہم سب داخل ہیں ، آیات و احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے اور یہی حضرت امام ابو منصور ماتریدی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے ، ان آیات میں اہلِ بیتِ رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ گناہوں سے بچیں اور تقویٰ وپرہیزگاری کے پابند رہیں، گناہوں کو ناپاکی سے اور پرہیزگاری کو پاکی سے استعارہ فرمایا گیا کیونکہ گناہوں کا مرتکب ان سے ایسا ہی ملوّث ہوتا ہے جیسا جسم نجاستوں سے ۔ اس طرزِ کلام سے مقصود یہ ہے کہ اربابِ عقول کو گناہوں سے نفرت دلائی جائے اور تقوٰی و پرہیزگاری کی ترغیب دی جائے ۔
تعلیم وتربیت:
مدینۃ العلم کی لختِ جگر اور بابِ علم کی زوجہ محترمہ کے علم وعرفان اندازہ کون لگا سکتا ہے ۔آپ کا نامِ نامی فاطمہ اور لقب بتول اور زہرا ہے،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سرکار ِ دو عالم صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی لختِ جگر اور سب سے زیادہ محبوب ہیں،انہیں تکلیف پہنچانے والے پر اللہ کا غضب ہے،اور ان کی تکلیف سے سرکار کو دکھ پہنچتا ہے، آپ صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل میں سے سب سے پہلے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اپنی ملاقات کی انہیں خوشخبری سنائی، آپ کے مقام ومرتبہ کا یہ عالم ہے کہ میدانِ محشر میں آپ کی تشریف آوری پر تمام کو نظریں جھکانے کا حکم دیا جائے گا،مزید آپ کا شانِ شرف یہ کہ آپ جہاں کی عورتوں سے افضل اورتمام جنتی عورتوں کی سردارہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مثل عالم میں نہیں ہے۔
دینی خدمات:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح امام المشارق والمغارب شیرِ خدا تمام صوفیانِ اہلِ صفا کے پیشوامولا علی مشکل کشا رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے ہوا،آپ ہی سے ساداتِ کرام کا سلسلہ آگے بڑھا، خلق کے ہادی ورہبرحضرت سیدنا امامِ حسن اور امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ ہی کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے دین کی ایسی خدمت کی جسے زمانہ یاد کرتا رہے گا۔
کرتا رہے گا یاد زمانہ عظمت حسین کی
پڑے گی ہر دور میں ضرورت حسین۔
عقدِ مسنون:
تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لئے ہیں جوعظیم،محمود، کریم ،مقصود،قدیم اورموجودہے ۔ جس نے اہلِ حقیقت کے لئے آسمانِ توفیق کے کناروں سے سعادت کے ستارے ظاہر فرمائے اور آراستہ وجودکودرجۂ شہودکے آئینوں میں چمکایا۔ توجس نے مطلوب کوسمجھا و ہ مقصود کو پہنچا۔ اس نے موسم بہارکودرختوں کے نئے پتوں کے ذریعے مزین کیاکہ وہ خوبصورت وعمدہ پوشاک میں ، نرم ونازک ٹہنیوں کے ساتھ جھومتے ہیںاوران کے پتوں میں خوبصورت آواز والے پرندوں کو درختوں کے منبروں پر ٹھہرایاکہ سحرکے وقت مالک ومعبود عَزَّوَجَلَّ کی حمد وثنا کرتے ہیں۔اس نے عقل کو جملہ دلائل میں سے انسانی اعضاء اور آنکھوں پر حاکم بنایا اورعقل نے انہیں اللہ تعالیٰ کی کا ریگری کے عجائبات میں غوروفکرکاحکم دیا۔چنانچہ،انہوں نے انگور اور گندم کے دانوں کے خوشوں کامشاہدہ کیاتوغوروفکرکے بعدبنانے والے کی قدرت پر حیرت زدہ ہیں کہ کس طرح اُس نے سرکش ومنکرین (کو سمجھا نے ) کے لئے مختلف موجودات کوپیدافرمایااورقطعی دلائل قائم فرمائے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے سخت ومضبوط چٹانوں سے نہریں جاری فرمائيں، درختوں سے پھولوں کو ظاہرکیااور لکڑی سے پھلوں کونکالا ۔ اس نے آسمان کو چاند وسورج سے آراستہ کیا۔بطحائے مکہ کوحضرت ابوبکرصدیق وعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے فضیلت بخشی۔خاتونِ جنت حضرت سیدتنافاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہاکوحضرات حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے نوازا اور اِن کے ناناجان ، رحمتِ عالمیان ،سرورِذیشان صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو سب سے زیادہ عزت وشرف عطا فرمایا۔کتنے ہی اس کے مشتاق، حسرت ویاس کے پیکربنے ہوئے ہیں کہ اس کے شوق میں اعلیٰ نسبوں نے جفاکش ٹانگوں کے ذریعے انتھک کوششیں کیں ۔پس انہوں نے ہجرورکاوٹ کے جنگل کوطے کرلیاپھرجب وہ اس مجلس میں پہنچ جاتے ہیں توانہیں جھومتا ہوا دیکھے گااورجب کوئی حُدی خواں ان کے سامنے حمد ِالٰہی عزوجل کانغمہ گنگناتاہے توان کے رخساروں پر آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ جب آسمانِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر حضر تِ سیدتنافاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاآفتابِ حسن وجمال چمکا اورا فقِ عظمت وجلال پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا بدرِکمال طلوع ہوا، تونیک خصلت ذہنوں میں اپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاخیال آیا،مہاجرین و انصار کے معززین نے پیغامِ نکاح دیا۔ لیکن رضائے الٰہی عزوجل کے ساتھ مخصوص ذات نے انکار کرتے ہوئے فرمایا: میں خدائی فیصلے کا منتظر ہوں۔حضرتِ سیدناابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرتِ سیِّدُناعمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی پیغامِ نکاح عرض کیاتو ان سے بھی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے یہی ارشاد فرمایا:یہ معاملہ اللہ عزوجل کے ذمۂ کرم پر ہے۔ رشتے کے لئے میرے جیسااور کوئی نہیں لیکن غربت نے مجھے اس سے روک رکھا ہے۔ حضرتِ سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے علی! ایسا نہ کہو ! اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے نزدیک دنیااور جو کچھ اس میں ہے ، اُڑتے غبار کی مانند ہے ۔
انسانی حور:
حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، رحمتِ عالمیان،سرورِ کون ومکان،سید انس وجان، محبوبِ رحمن عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے : فاطمہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا)میرے جسم کا ٹکڑا ہے ، فاطمہ انسانی حور ہے ۔
(صحیح البخاری، الحدیث: ۳۷۶۷، ص۳۰۶)(تاریخِ بغداد، الحدیث: ۶۷۷۲، ج۱۲، ص۳۲۸)
مروی ہے:حضرتِ سیدتناخدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دن سرکارِ والاتبار،محبوبِ ربّ غفار،دوعالم کے مالک ومختار باذنِ پروردْگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں جنتی پھل دیکھنے کی خواہش کی توحضرتِ سیدنا جبرائیلِ امین علیہ السلام سیّد الکونین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں جنت سے دو سیب لے کر حاضر ہوگئے اور عرض کی :اے محمد (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلَّم)! خدائے رحمن عزوجل جس نے ہر شے کا اندازہ رکھا، فرماتا ہے : ایک سیب آپ (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کھائیں اور دوسر ا خدیجہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)کو کھلائیں پھر حقِ زوجیت ادا کریں، میں تم دونوں سے فاطمۃالزہراء کو پیدا کروں گا۔ چنانچہ، حضور نبیٔ مختار، محبوبِ غفّار عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرتِ سیدنا جبریلِ امین علیہ السلام کے کہنے کے مطابق عمل کیا۔ جب کفار نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے کہا کہ ہمیں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھائیں۔ ان دِنوں حضر ت سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکوحضرتِ سیِّدتنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا حمل مبارک ٹھہر چکا تھا۔ حضرتِ سیِّدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اس کی کتنی رسوائی ہے جس نے ہمارے آقا محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو جھٹلایا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سب سے بہتر رسول اور نبی ہیں۔ تو حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ان کے بطنِ اطہرسے ندا دی: اے امی جان! آپ غمزدہ نہ ہوں اور نہ ہی ڈریں، بے شک اللہ عزوجل میرے والد ِمحترم کے ساتھ ہے۔
جب مدتِ حمل پوری ہوئی اورحضرتِ سیدتنافاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی ولادت ہوئی تو ساری فضا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چہرے کے نو ر سے منورہو گئی۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحرو بر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو جب جنت اور اس کی نعمتوں کا اشتیاق ہوتا تو حضر تِ سیدتنافاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بوسہ لے لیتے اور ان کی پاکیزہ خوشبو کو سونگھتے اورجب ان کی پاکیزہ مہک سونگھتے تو فرماتے : فاطمہ تو انسانی حور ہے۔(سیرتِ مصطفیٰ صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم، ص ۶۹۹)
اولادِ امجاد:
۲ھ میں امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدارضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے تین صاحبزادگان حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تین صاحبزادیوں زینب و ام کلثوم و رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی ولادت ہوئی۔ حضرت محسن و رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماتو بچپن ہی میں وفات پاگئے۔ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ جن کے شکم مبارک سے آپ کے ایک فرزند حضرت زید اور ایک صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی پیدائش ہوئی اورحضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوئی۔(مدارج النبوۃ، ج۲، ص۴۶۰)
وفات ومدفن:
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال شریف کا حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قلب مبارک پر بہت ہی جانکاہ صدمہ گزرا۔ چنانچہ وصال اقدس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کبھی ہنستی ہوئی نہیں دیکھی گئیں۔ یہاں تک کہ وصال نبوی کے چھ ماہ بعد ۳ رمضان ۱۱ھ منگل کی رات میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت علی یاحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور سب سے زیادہ صحیح اورمختار قول یہی ہے کہ جنۃ البقیع میں مدفون ہوئیں۔(مدارج النبوۃ، ج۲، ص۴۶۱، سیرتِ مصطفیٰ، ص۶۹۹)