ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
خلاصہ
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب کہ لوگ میری تکذیب کرتے تھے اور انہوں نے اپنے مال سے میری ایسے وقت مدد کی جب کہ لوگوں نے مجھے محروم کررکھا تھا۔
ولادت باسعادت
زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت سیدتنا طاہرہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی ولادت خاندانِ قریش میں خویلد بن اسد کے ہاں ہوئی۔
نسب شریف وکنیت
سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام ہند ہے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں۔ (مدارج النوۃ، ج۲، ص۴۶۴)
اسم گرامی وکنیت
آپ کا نام خدیجہ ہے اور کنیت اُمِّ ہند ہےاور آپ سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے پہلی اور محبوب ترین رفیقۂ حیات ہیں،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تمام ازواجِِ مطہرات پر خصوصی فضیلت ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی موجودگی میں پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا۔(صحیح مسلم،الحدیث۲۴۳۵،ص۱۳۲۴)
اللہ عزوجل کا سلام
اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کا مرتبہ اور مقام یہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر سلام بھیجا جاتا تھا چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں جبرائیل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ عزوجل کے رسول! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا۔(صحیح مسلم،الحدیث۲۴۳۵،ص۱۳۲۴)کفارکی طرف سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جو غم پہنچتا تھاوہ سب سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھتے ہی جاتا رہتا تھا او رآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوجاتے تھے اور جب سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تشریف لاتے تو وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر مدارات فرماتیں جس سے ہر مشکل آسان ہوجاتی آپ کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ غمگین ہوئے اور آپ صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ کی وفات کے سال کو عام الحزن (غمی کا سال) فرمایا کرتے تھے۔
تعلیم وتربیت
آپ خاندانِ قریش کی بہت ہی معزز اور پاکدامن خاتون تھیں اہلِ مکہ آپ کی پاکدامنی اور پارسائی کی بنا پر آپ کو طاہرہ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
دینی خدمات
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تقریباً پچیس سال حضور پرنور شافع یو م النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات رہیں، سب سے پہلے علی الاعلان ایمان لانے والی حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں اور ابتداء اسلام میں جب کہ ہر طرف سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی مخالفت کا طوفان اُٹھ رہا تھا ایسے کٹھن وقت میں صرف انہیں کی ایک ذات تھی جو رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی مونسِ حیات بن کر تسکینِ خاطر کا باعث تھی۔ انہوں نے اتنے خوفناک اور خطرناک اوقات میں جس استقلال اور استقامت کے ساتھ خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اور جس طرح تن من دھن سے بارگاہ نبوت میں اپنی قربانی پیش کی اس کی گواہی خود زبانِ رسالت نے دی چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے فرمایا:اللہ کی قسم!خدیجہ سے بہتر کوئی بھی نہیں ہے جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگوں نے میری تکذیب کی اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲتعالیٰ نے مجھے اولادعطافرمائی۔
(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ، ج۴،ص۳۶۳۔الاستیعاب، ج۴، ص۳۷۹)
افضل ترین جنتی عورتیں
مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،سیدہ فاطمہ بنت محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہاو صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ،حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالیٰ عنہا امراه فرعون ہیں۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث: ۲۹۰۳، ج۱، ص۶۷۸)
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تجارت میں دونا نفع
سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا ہر جگہ چرچا تھا حتی کہ مشرکین مکہ بھی انہیں الامین والصادق سے یاد کرتے، سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے کاروبار کے لئے یکتائے روزگار کو منتخب فرمایا اور سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں پیغام پہنچایا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مال ِ تجارت لے کر شام جائیں اور منافع میں جو مناسب خیال فرمائیں لے لیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس پیشکش کو بمشورۂ ابوطالب قبول فرمالیا۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے غلام میسرہ کو بغرض خدمت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ کردیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنا مال بصرہ میں فروخت کرکے دونا نفع حاصل کیا نیز قافلے والوں کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی صحبت بابرکت سے بہت نفع ہوا جب قافلہ واپس ہوا تو سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دیکھا کہ دو فرشتے رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پر سایہ کنا ں ہیں نیزدوران سفر کے خوارق نے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ کاگرویدہ کردیا۔
(مدارج النبوۃ، ج۲، ص۲۷)
عقدِ مسنون
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں۔ بکثرت قریشی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے نکاح کے خواہشمند تھےلیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا۔ سردار دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بھی اپنے چچا ابوطالب، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر رؤساء کے ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر تشریف لائے۔ جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا۔(مدارج النبوۃ، ج۲، ص۲۷)بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ، ج۸، ص۱۳)
غم گسار زوجہ
غارِ حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہِ رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں وحی لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا پڑھئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: کہ ''ما انا بقارئ'' میں نہیں پڑھتااس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے اپنی آغوش میں لے کر بھینچاپھرچھوڑ کر دوبارہ کہا: پڑھئے، میں نے کہا: میں نہیں پڑھتا، جبرائیل علیہ السلام نے پھر آغوش میں لے کر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا پڑھئے میں نے کہا میں نہیں پڑھتا۔ تیسری مرتبہ پھر جبرائیل علیہ السلام نے آغوش میں لے کربھینچاپھرچھوڑکر کہا: اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾خَلَقَ الْاِنۡسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾اِقْرَاۡ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۙ﴿۳﴾الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۙ﴿۴﴾عَلَّمَ الْاِنۡسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ؕ﴿۵﴾
ترجمۂ کنزالایمان : پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم جس نے قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔(العلق، ۱تا ۵)اس پر مژدہ واقعہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی طبیعت بے حد متأثِر ہوئی گھر واپسی پر سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: ''زملونی زملونی''مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے جسم انور پر کمبل ڈالا اور چہرہ انور پر سرد پانی کے چھینٹے دیئے تاکہ خشیت کی کیفیت دور ہو۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سارا حال بیان فرمایا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ اچھا ہی فرمائے گاکیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم صلۂ رحمی فرماتے، عیال کا بوجھ اٹھاتے، ریاضت و مجاہدہ کرتے، مہمان نوازی فرماتے، بیکسوں اور مجبوروں کی دستگیری کرتے، محتاجوں اور غریبوں کے ساتھ بھلائی کرتے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے، لوگوں کی سچائی میں انکی مدد اور ان کی برائی سے حذر فرماتے ہیں، یتیموں کو پناہ دیتے ہیں سچ بولتے ہیں اور امانتیں ادا فرماتے ہیں۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ان باتوں سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو تسلی و اطمینان دلایا کفار قریش کی تکذیب سے رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم جو غم اٹھاتے تھے وہ سب سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھتے ہی جاتا رہتا تھا او رآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم خوش ہوجاتے تھے اور جب سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تشریف لاتے تو وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خاطر مدارات فرماتیں جس سے ہر مشکل آسان ہوجاتی۔ (مدارج النبوۃ، ج۲، ص۳۲، ص۴۶۵)
سابق الایمان
مذہب جمہور پر سب سے پہلے علی الاعلان ایمان لانے والی حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ کیونکہ جب سرور دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم غارحرا سے تشریف لائے اور ان کو نزول وحی کی خبر دی تو وہ ایمان لائیں۔ بعض کہتے ہیں ان کے بعد سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے بعض کہتے ہیں سب سے پہلے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف دس سال کی تھی۔ شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں۔ کہ سب سے زیادہ محتاط اور موزوں تر یہ ہے کہ آزاد مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں اور نو عمروں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عورتوں میں سیدتنا خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور موالی میں زيد بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور غلاموں میں سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے۔(مدارج النبوۃ، ج۲، ص۳۲)
فراخدلی
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: اللہ کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولادعطافرمائی۔(مدارج النبوۃ، ج۲، ص۳۲)
اولادِ اکرام
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ہوئی۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے۔ فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں۔
(السیرۃ النبویۃ، ص۷۷، اسد الغابۃ، ج۷، ص۹۱)
وفات ومدفن
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصالِ ظاہری ہجرت سے ۳ سال قبل بعثت کے دسویں سال ۶۵برس کی عمر میں ماہ ِ رمضان المبارک میں ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ معظمہ کے مشہورقبرستان حجون(جنت المعلی) میں مدفون ہیں۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی ۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی۔ اس سانحہ پر رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے۔(سیرتِ مصطفے،ص۶۵۵،مدارج النبوت، ج۲،ص۴۶۴)
ذکرِ خیر
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیاں تھیں۔
(صحیح مسلم، الحدیث: ۲۴۳۵، ص۱۳۲۳)