Jazzak Allah
٢١ رمضان - یوم مولا علی مشکل کشا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم
خلاصہ
امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دس خوش بخت افراد میں سے ایک ہیں جنہیں جنت کی خوشخبری دی گئی تھی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رشتہ مواخات میں رسول اللہ صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی بنے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ خاتون جنت کے زوج محترم ہیں۔ آپ سب سے پہلے اسلام لانے والے خوش نصیب افراد میں سے ایک ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عالمِ ربانی، نامور بہادر، بے نظیر زاہد، معروف خطیب اور جامع قرآن ہیں۔
تاریخِ ولادت باسعادت ومقامِ ولادت
امام المشارق والمغارب امیر المؤمنین حضرتِ علی المرتضیٰ مشکل کشاشیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادتِ باسعادت بروز جمعۃ المبارک ۱۳ رجب المرجب واقعہ فیل کے تیسویں یا اٹھائیسویں سال خانۂ کعبہ کے اندرہوئی۔ (مرآۃ الاسرار، ص ۱۷۸)
اسم گرامی،کنیت والقابات
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نامی اسمِ گرامی علی، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے مؤخر الذکر کنیت خود سرکارِ دو عالم نور مجسم شہنشاہِ بنی آدم صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی تھی، آپ کے القابات: امیرالمؤمنین امام المسلمین،مرتضی ،اسداللہ اور ولی اللہ،حیدرِ کرارہیں،( مرآۃ الاسرار، ص۱۷۸) اللہ تعالی کے ہاں آپ کا مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپ کی شان میں ۳۰۰ آیات نازل ہوئیں ۔سرکارصلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے، آپ کے حوالے سے سرکارِ دو عالم صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں جس کا میں مولاہوں علی بھی اس کا مولا ہے سب پر ظاہر ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد ہیں۔آپ پہلی ہاشمیہ خاتون ہیں جنہوں نے ہاشمی فرزند جنم دیا، آپ نے اسلام قبول کیا اور ہجرت بھی کی۔
سلسلۂ نسب
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلۂ نسب علی ابن ابی طالب (عبد مناف)بن عبد المطلب(شیبہ)بن ہاشم(عمرو) بن عبد المناف(المغیرہ) بن قصیّ(زید) بن کلاب بن مرہ بن کعب بن نوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ ہے۔(تاریخ الخلفاء، ص۲۹۷)
تعلیم وتربیت
امیر المؤمنین سیدالامہ زوجِ بتول کرم اللہ وجہہ الکریم نے سرکار صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں تعلیم وتربیت حاصل کی،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت کے بعد سرکارصلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنی گود میں اٹھا کر اپنا منہ ان کے منہ پر رکھا اور وہ زبان مبارک جسے سب کن کی کنجی کہیں آپ کے منہ میں دے دی کافی دیر تک آپ زبان مبارک چوستے رہے اورلعابِ دہنِ نبوی سرچشمۂ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی کا شربتِ حیات پیتے رہے،آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کثرتِ علم کے بموجب تمام صحابہ میں مخصوص تھے اور سرکار صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ ہی کی شان میں فرمایا ہے اَنَامَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔نیز روحانیت وطریقت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ بہت بلند اور شان بہت ارفع واعلی ہے، آپ کی شان میں مولانا روم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں
آفتابِ وُجودِ اَہلِ صَفا واں اِمامِ مَتیں وَلی ٔخدا۔
مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وہہ الکریم علی الاعلان فرماتے تھے جوکچھ پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تمام علوم ادیب لبیب وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَم کے مکتب سے سیکھے ہیں ۔ آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے سینہ پر سرکار صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک پھیر کر دعا دی الہٰی! ان کے قلب کو روشن فرما دے۔(تاریخ الخلفاء، ص ۳۱۱، مرآۃ الاسرار، ص۱۷۸)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے سرکار صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے علم کے ۱۰۰۰ باب سکھائے اور مجھ پرہر ہزار پر علم کے ۰۰۰،۱۰ باب کھلے ۔ (شرح المقاصد فی علم الکلام،ج۲،ص۳۰۱)
شیخ فرید الدین عطاررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں
نبی دَر گوشِ اُو یَک عِلم دَرداد
وَزاں اَندردِلَش صَد عِلم بِکُشاد
آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فرماتے ہیں: جتنی آیاتِ قرآنی نازل ہوئی ہیں سب کے بارے مجھے علم ہے کہ کہاں اور کس کے بارے نازل ہوئیں۔(تاریخ الخلفاء،ص۳۸۹ )
دینی خدمات
امیر المومنین ،حیدرِ کرارفاتحِ خیبر، امیرِ لا فَتی مولا علی مشکل کشاکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی دینی خدمات کا کسی طرح احاطہ اور شمار ممکن نہیں آپ کی خدمات قیاسِ فہم سے بالا تر اور حِیطۂ اِدراک سے باہر ہیں،اسلام کے خلیفۂ چہارم اور بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں،آپ ہی نسلِ جنابِ مصطفیٰ کی اصل ہیں۔(مرآۃ المناجیح ،ص۹۴)، غزوات اور دوسری جنگوں میں آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے کار نامے اور کمالات مشہور ہیں اس کے لئے لاَ فَتٰی اِلّا عَلِی اور لَاسَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقار (جوان ہو تو علی جیسا اورتلوار ہو تو ذوالفقار جیسی) کا نکتہ کافی،آپ سے ۱۸۶ احادیث مروی ہیں اور بہت سارے علوم جیسے علمِ طریقت، علمِ اصول،علمِ تفسیر،علمِ نحو وغیرہ آپ ہی کی طرف منسوب ہیں،الغرض آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی خدمات اورعلمی اور روحانی انوارِ ساطعہ سے تا قیامت اَکنافِ عالم منور اور روشن رہیں گے۔(مرآۃ الاسرار ،ص۱۹۲، شرح المقاصد فی علم الکلام،ج۲،ص۳۰۱)
وفات ومدفن
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۶۳سال کی عمر میں ۲۱ رمضان المبارک کو شربتِ شہادت نوش فرمایا،آپ کا مزارِ پر انوار کوفہ کے قبرستان نجف اشرف میں ہے۔( مرآۃ الاسرار ،ص۱۹۲، مرآۃ المناجیح،ج۱،ص۹۴)
Jazzak Allah
مولیٰ علی نے خالی ہتھیلی پر دم کیا اور۔۔۔۔
ایک بار کسی بھکا ری نے کُفّار سے سُو ال کیا،اُنہوں نے مذاقاً امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ مُشکل کُشا،علیُّ الْمُرتَضٰی، شیرِخداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس بھیج دیا جو کہ سا منے تشریف فرما تھے ۔ اُس نے حا ضِر ہو کر دستِ سُوال دراز کیا،آپکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے 10 بار دُرُود شریف پڑھ کر اُس کی ہتھیلی پر دم کر دیا اور فرمایا: مُٹّھی بند کر لو اور جن لوگوں نے بھیجا ہے اُن کے سامنے جا کر کھول دو۔ (کُفّار ہنس رہے تھے کہ خالی پھو نک مارنے سے کیا ہوتا ہے!) مگر جب سائل نے اُن کے سامنے جاکر مٹّھی کھولی تو اُس میں ایک دِینار تھا! یہ کر امت دیکھ کر کئی کافِر مسلمان ہو گئے۔ (راحت القلوب ص۱۴۲)
مولیٰ علی مومِنوں کے ’’ولی‘‘ ہیں
حضرتِ سیِّدُنا عمران بن حُصَیْن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے: مدینے کے سلطان، رَحمتِ عالَمِیان، سَرورِ ذیشان، مَحبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ تقرُّب نشان ہے: ’’اِنَّ عَلِیًّا مِّنِّیْ وَاَنَا مِنْہٗ وَھُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ یعنی علی مجھ سے ہیں ، میں علی سے ہوں اور وہ ہر مومِن کے وَلی ہیں۔‘‘ (تِرمِذی ج۵ص۴۹۸حدیث۳۷۳۲)
واسِطہ نبیوں کے سَروَر کا واسِطہ صِدِّیق اور عُمَر کا
واسِطہ عثمان و حیدر کا
یا اللہ! مِری جھولی بھر دے(وسائلِ بخشش ص ۱۰۷)
یہاں ’’ ولی ‘‘سے کیا مُراد ہے؟
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں : یہاں ولی بمعنی خلیفہ نہیں بلکہ بمعنی دوست یا بمعنی مددگار ہے، جیسے رب فرماتا ہے :
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا(پ ۶، المائدہ: ۵۵)
ترجَمۂ کنزالایمان:تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے۔
وہاں بھی ولی بمعنی مددگار ہے۔ ’’ اس فرمان سے دو مسئلے معلوم ہوئے ، ایک یہ کہ مصیبت میں ’’ یا علی مدد‘‘ کہنا جائز ہے ، کیونکہ حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہر مومن کے مددگار ہیں تا قیامت، دوسرے یہ کہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہنا جائز ہے کہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہر مسلمان کے وَلی اور مولیٰ ہیں۔‘‘
(مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۱۷)
اَہلِ بَیت سے مَحَبّت کی فضیلت
سرکارِاَبَدقرار،شفیعِ روزشُمار،دوعالَم کے مالِک ومُختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک روز امامِ حسن وحُسینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’جو مجھے دوست رکھتا ہے اورساتھ ہی اِن کواوراِن کے والِدَین کو بھی محبوب رکھتاہے وہ بروزِقِیامت میرے ساتھ ہوگا۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل ج۱ص۱۶۸حدیث۵۷۶)
جسے اہلِ بیت کی مَحَبَّت مل جائے اُسے دونوں جہاں کی عزَّت مل جائے گی، آخِرت میں رسولِ رَحمت، شفیعِ اُمّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رفاقت مُیَسَّر آئے گی اوراہلِ بیت کے صدْقے اُس کی بخشش ومَغْفِرَتہو جائے گی۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
اِبْنِ مُلْجَم کی بدبختی کا سبب عشق مجازی ہوا
’’مُسْتَدْرَک‘‘ میں ہے کہ اِبنِ مُلْجَم ایک خارِجِیّہ عورت کے عشقِ مجازی، میں گرفتار ہو گیا تھا، اُس ظالِمہ خارِ جِیّہ عورت نے شادی کے لئے مَہر میں 3 ہزار دِرہَم اورنَعُوْذُ بِاللہ حضرتِ مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے قَتْل کا مطالَبہ رکھا تھا۔ (مُستَدرَک ج۴ص۱۲۱حدیث۴۷۴۴)اِبْنِ مُلْجَم کوفہ پہنچا اوروہاں کے خَوارِج سے ملا اور اُنہیں درپردہ اپنے ناپاک اِرادے کی اِطّلاع دی تو وہ بھی اُس کے ساتھمُتَّفِق ہو گئے۔
شہادت کی رات
اِس ماہِ رَمَضانُ المبارَک (40ھ)میں آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کایہ دستُور تھا کہ ایک شب حضرتِ سیِّدُنا امامِ عالی مقام امامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، ایک شب حضرتِ سیِّدُنااِمام حسن مُجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور ایک شب حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ بن جعفَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس اِفطار فرماتے اور تین لقموں سے زیادہ تناوُل نہ فرماتے اور(کم کھانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) اِرشاد فرماتے: مجھے یہ اچّھا معلوم ہوتاہے کہ’’اللہ تَعَالٰی سے ملتے وقت میرا پیٹ خالی ہو۔‘‘ شہادت کی رات تو یہ حالت رہی کہ باربار مکان سے باہَر تشریف لاتے اور آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے: بخداعَزَّوَجَلَّ! مجھے کوئی خبر جھوٹی نہیں دی گئی، یہ وُہی رات ہے جس کا وَعدَہ کیا گیا ہے۔ (گویا آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنی شہادت کا پہلے ہی سے علْم تھا) (سوانِحِ کربلا ص۷۶،۷۷ملخصاً)
قاتِلانہ حملہ
شبِ جُمُعہ17(یا19)رَمَضانُ المبارَک 40ھ کوحَسَنَیْنِ کرِیْمَیْن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے والد بُزُرگوار، حیدرِکرَّار،صاحب ِذُوالفِقار اَمیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسَحَر(یعنی صبح) کے وقت بیدار ہوئے، مؤذِّن نے آکر آواز دی اور کہا:اَلصَّلٰوۃ اَلصَّلٰوۃ!چُنانچِہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نَماز پڑھنے کے لئے گھر سے چلے، راستے میں لوگوں کو نَماز کے لئے صدائیں دیتے اور جگاتے ہوئے مسجد کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ اچانک اِبْنِ مُلْجَم خارِجی بدبَخْت نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر تلوار کا ایک ایسا ظالمانہ وار کیاکہ جس کی شدّت سے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی پیشانی کنپٹی تک کٹ گئی اور تلوار دماغ پر جا کر ٹھہری۔ اتنے میں چاروں طرف سے لوگ دوڑ کر آئے اور اُس خارِجی بدبَخت کو پکڑ لیا۔ اِس اَلَم ناک واقِعہ کے 2دن بعد آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ (تاریخ الخلفاء ص۱۳۹) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری بے حساب مغفِرَت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
بْنِ مُلْجَم کی لاش کے ٹکڑے نَذْرِ آتش کر دیئے گئے
حضرتِ سیِّدُنااِمام حسن،سیِّدُنا امام حسین اورسیِّدُناعبدُاللہبن جعفَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو غُسْل دیا، حضرتِ سیِّدُنااِمام حسن مُجتبَیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اوردارُالاِْمارت کوفہ میں رات کے وقت دَفْن کیا۔ لوگوں نے اِبْنِ مُلْجَم بَدکِردار وبَداَطوار کے جسْم کے ٹکڑے کرکے ایک ٹوکرے میں رکھ کر آگ لگا دی اور وہ جل کر خاکِستر ہو گیا۔(ایضاً)
بعدِ موت قاتِلِ علی کی سزا کی لرزہ خیز حکایت
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کی مَطْبُوعہ کتاب ’’فیضانِ سنّت‘‘ جلد دُوُم کے 505 صفْحات پر مشتمل باب’’غیبت کی تباہ کاریاں ‘‘ صَفْحَہ199 پر ہے: عِصْمَہ عَبَّادَانِیکہتے ہیں : میں کسی جنگل میں گھوم رہا تھا کہ میں نے ایک گِرجا دیکھا،گِرجا میں ایک راہِب کی خانقاہ تھی اُس کے اندر موجود راہِب سے میں نے کہا کہ تم نے اِس (ویران)مقام پرجو سب سے عجیب وغریب چیز دیکھی ہو وہ مجھے بتاؤ! تواُ س نے بتایا: میں نے ایک روز یہاں شُتَر مُرغ جیسا ایک دیو ہیکل سفید پرندہ دیکھا، اُس نے اُس پتّھر پر بیٹھ کرقَے کی، اُس میں سے ایک انسانی سر نکل پڑا ،وہ برابر قے کر تا رہا اور انسانی اَعضا ء نکلتے رہے اور بجلی کی سی سُرعَت( یعنی پُھرتی) کے ساتھ ایک دوسرے سے جُڑتے رہے یہاں تک کہ وہ مکمَّل آدَمی بن گیا! اُس آدَمی نے جوں ہی اُٹھنے کی کوشش کی اُس دیو ہیکل پرندے نے اُس کے ٹھونگ ماری اور اُس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، پھر نگل گیا۔ کئی روز تک میں یہ خوفناک منظر دیکھتا رہا، میرا یقین خدا عَزَّوَجَلَّ کی قدرت پر بڑھ گیا کہ واقِعی اللہ عَزَّوَجَلَّ مار کر جِلانے پر قادِرہے۔ ایک دن میں اُس دیو ہیکل پر ندے کی طرف مُتَوَجِّہہوا اور اُس سے دریافت کیا کہ اے پرندے! میں تجھے اُس ذات کی قسم دے کر کہتا ہوں جس نے تجھ کو پیدا کیا! اب کی بار جب وہ انسان مکمَّل ہو جائے تو اُس کو باقی رہنے دینا تاکہ میں اُس سے اُس کا عَمَل معلوم کر سکوں ! تو اُس پرندے نے فَصِیح عَرَبی میں کہا: ’’میرے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہی بادشاہت اوربَقا ہے ہر چیز فانی ہے اور وُہی باقی ہے میں اُس کا ایک فِرِشتہ ہوں اور اِس شخص پر مُسلَّط کیا گیا ہوں تا کہ اِس کے گناہ کی سزا دیتا رہوں۔‘‘ جب قے میں وہ انسان نکلا تو میں نے اُس سے پوچھا: اے اپنے نفس پر ظلم کرنے والے انسان! تو کون ہے اور تیرا قصّہ کیاہے ؟ اُس نے جواب دیا: ’’میں ( حضرتِ) علیُّ(کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم)کا قاتل عبدالرحمن اِبْنِ مُلْجَمہوں، جب میں مر چکا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سامنے میری روح حاضِر ہوئی، اُس نے میرا نامۂ اَعمال مجھ کو دیا جس میں میری پیدائش سے لے کر حضرتِ علی(کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) کو شہید کرنے تک کی ہر نیکی اور بدی لکھی ہوئی تھی ۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اِس فرِشتے کو حکم دیا کہ وہ قِیامت تک مجھے عذاب دے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چُپ ہو گیا اور دیو ہیکل پرندے نے اس پرٹھونگیں ماریں اور اس کو نگل گیا اور چلا گیا۔(شَرْحُ الصُّدُور ص۱۷۵)
Last edited by shaikh_samee; 09-07-2015 at 12:50 PM.
جزاک اللہ ۔۔۔۔۔۔ شیئرنگ کا شکریہ