نگاہوں کا اشارہ ہو رہا ہے
کہ جنت کا نظارہ ہو رہا ہے؟
الہی! کھول دے دنیا پہ وہ سب
جو مجھ پر آشکارہ ہو رہا ہے
میں رگ پہچانتا ہوں زندگی کی
ہر اک طوفاں کنارہ ہو رہا ہے
فقط صنفِ سخن ٹھہری محبت
ستم اک استعارہ ہو رہا ہے
طریقت میں جو سب کچھ نا روا تھا
محبت میں گوارہ ہو رہا ہے
غمِ دنیا سے فرصت تھی نہ جس کو
وہی دل اب تمھارا ہو رہا ہے
نہ دیں اپنا، نہ دنیا ہے ہماری
بہر صورت خسارہ ہو رہا ہے
ہمارا حال اب ایسا ہے سرور
دعاؤں پر گزارہ ہو رہا ہے