صدیوں سے میرے اندر تیرے عشق کا دریا جاری ہے

تیری یاد کو مٹا سکوں مجھے خود پہ بے اختیاری ہے

تیرے بعد اب کوئی بھی تمنا باقی نہیں رہی ہمدم

لگتا ہے جیسے یہ دل سب خواہشوں سے عاری ہے

تیری سانسوں کی خوشبو آج بھی مہکتی ہے مجھ میں

اس ہجر کے جنگل میں تیرے عشق کی مدہوشی طاری ہے

اِک اُس کے درد نے ہی تو کیا ہے نڈھال مجھ کو

غموں کی بھیڑ میں غمِ جاناں سب پہ بھاری ہے

یہ جو چھایا ہے مجھ پہ تیری یادوں کا سکوت

تیری باتوں کا جادو ہے تیرے وِصل کی خماری ہے

گر تُو ساتھ ہوتا تو ہم بھی چلتے منزل کی جانب

بِن تیرے ہمسفر یہ دل سفر سے انکاری ہے