فسوں گر

شام آج پھر سے ڈھل گئی
جاتے سورج کے دھندلکے
میرے قلم میں بھر گئی
سیاہی نرم جذبوں کی
دشت تنہائی میں پھیلی
کوئی خوشبوانوکھی سی
پوروں میں گدگدی کرتی
نظم اک ان چھوئی
نو عمر لفظوں نے پی لی
تیرے خیال کی مستی
یہ کوئی ساتھ ہے ملا
یا ملی Ù…Ø+بت کوئی نئی
اسکی انکھوں نے بخش دی
سند سچی چاہت کی
مہک اس کے وجود کی
چوکھٹ سے اب تک ہے لپٹی
فسوں گر ہے وہ دلربا
اسکا دل ہے سونے کا
اسکی چاپ چاندی کی