جہاد کے دو چہرے ہوتے ہیں ایک حضرت خالد بن ولید دشمن کے لیے ننگی تلوار ، ہر خود سر ،متکبر کا سر توڑنے والا ،اتنا قوی کے مشہور ترین ایرانی پہلوان کو بغل میں دبا کر مار ڈالے اور اتنا جری کہ لشکر اسلام کا ایک سپاہی دشمن کی کثرت دیکھ بے اختیار کہہ اٹھے کہ آج تو دشمن بہت بڑی تعداد اور تیاری کیساتھ آیا ہے اور خالد جھڑک کر کہے "چپ کر ، اللہ کی قسم اگر میرے نیزے کی انی اور ٹھیک ہوتی تو کفار اتنا ہی لشکر اور لے آتے"
یہ خالد ہیں ،برق بن کر گرتے ہیں اور دشمنان اسلام کے سر نیزوں پر لٹکاتے چلے جاتے ہیں ۔پانچ سو کا لشکر لیکر ہزاروں کی تعداد پر جاگرتے ہیں ،دل انکے آگے ہوا ہوئے جاتے ہیں ،رعب و خوف کا یہ عالم کہ مخالف لشکر جب یہ خبر پالیتا ہے کہ لشکر اسلام کی قیادت خالد کے ہاتھ میں ہے تو ناامید ہوکر رہ جاتا ہے ! یہ خالد ہیں جبار و متکبرین کے سر کاٹنے والے ،زمنیں و علاقے فتح کرنے والے !


لیکن یہ حضرت عبیدہ بن الجراح ہیں حکیم الامت کا لقب رکھتے ہیں یہ علاقے نہیں ملک نہیں دل فتح کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔ اتنا کریم النفس شخص تاریخ نے آج تک نہیں دیکھا ۔ لشکر اسلام کے لیے فتح کوئی مسئلہ نہیں ہے اور فتح کے بعد مال غنمیت لیکن ابو عبیدہ صلح و معاہدے کی درخواست قبول کرتے ہیں اور اہل شہر کو امان دی جاتی ہے ۔ شہر چھوڑ کر جانے لگتے ہیں تو ذمیوں کو جزیئے کی رقم واپس کردیتے ہیں کہ اب ہم تمہاری حفاظت پر قادر نہیں رہے اس لیے جزیئے کے بھی حقدار نہیں ہیں ۔ قتل عام سے منع فرماتے ہیں ہر دم ہر وقت صلح و معاہدات پر نظر ہے
یہ جہاد کے دو چہرے ہیں ایک ملک جیتیا ہے ایک دل اور یوں فتح مبین مقدر بنتی ہے