مجھے لگا اسے بھی راتوں کو مری طرح نیند نہیں آئے گی
رات کو کئی بار اٹھ کر، اپنے بے ترتیب بسترکی شکنیں درست کرے گا
اپنے تکیے کو اٹھائے گا اور بانہوں میں بھر لے گا
یونہی سوتے میں مسکرائے گا اور پھر اچانک اٹھ کر
چپکے سے سرہانے سے ایک کتاب نکالے گا
خشک پتے، مرجھائے ہوئے پھول، اور بوسیدہ سی خوشبو!
اسے ضرور مری یاد دلائے گی
مجھے لگا کہ اس پل کبھی وہ بھی مری طرح رویا ہوگا
مری یاد میں کیا اتنا ہی تڑپا ہوگا
مجھ کو پانے کے لئے کیا اتنا ہی مچلا ہوگا
ہاتھوں سے خود ہی پونچھے گا آنسوؤں اور کھڑکی میں جاکر
کہیں دور تاروں بھر ے آسمان پر، بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے چاند کو دیکھ کر
یونہی اک پل کو اسکے دل میں بھی کبھی مرا خیال آیا ہوگا
مجھے لگتا تھا وہ بھی مری طرح راتوں کو۔۔۔!
مرے بازؤں کا تکیہ نہ پاکر، اپنی بے بسی اور بد نصیبی پر
کسی دیوار سے سر ٹکرائے گا اور مرجائے گا
مجھے لگا کہ پھر آنسوؤں نے اسے بھی چین سے سونے نہیں دیا ہوگا
اور ساری رات اپنے بستر کی پٹی پہ سر رکھے ، صبح کی تلاش میں کھویا ہوگا
مجھے لگا کسی رات وہ بھی کبھی ایسا بے بس ہوگا
کیا مری طرح وہ بھی کبھی ایسا بے خود ہوگا