خطیب نے پہلو بدلا۔ مجمعے پر نگاہ دوڑائی۔ پھر نوجوانوں سے مخاطب ہو کر بولا: ’’بازار سے گزرتی کسی کی بہن کو جب تم بری نظر سے تاڑتے ہو، تم کیا سمجھتے ہو تمہاری اپنی بہن اس فتنے سے محفوظ رہے گی؟‘‘ گردنیں جھک گئیں۔ ندامت کا پرندہ سب کے سروں پہ جا بیٹھا۔گفتگو جاری تھی: ’’ہر خاتون کسی کی ماں، کسی کی بیٹی، کسی کی بہن، کسی کی چچی، کسی کی ممانی یا کسی کی بیوی ہے، تم کیسے اطمینان کر لیتے ہو کہ تم تو کسی کی آبرو پر بدنظری کے زہریلے
تیر چلاؤ اور تمہارا گھر اس سے محفوظ رہے، یاد رکھو!
یہ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی بھول ہے!!!‘‘بزرگوں کے سر تصدیق میں ہلتے نظر آئے، جوانوں کے چہروں پر عزم کی لکیریں نمودار ہوئیں۔ خطیب رکا، لمبی سانس لی اور پھر کہنے لگا: ’’آج معاشرے میں پھیلی بے راہ روی، بے حیائی، گھر گھر سے ناموس کے جنازے، بے نکاحی کا رواج اور زانیوں کی کثرت کا سبب بس ایک ہی ہے اور وہ ہے: نوجوانوں کا اپنی نظروں کی حفاظت نہ کرنا ۔‘‘ اسی لمحے خطیب کی آواز مزید بلند ہوئی، وہ کہہ رہا تھا: ’’سنو! شیطان کے پھندوں میں سے ایک پھندہ بد نظری بھی ہے۔ اس بارے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا ہدایت دیتے ہیں؟ سورہ نور کی یہ آیت سنیے:’’اے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم!ایمان والے مردوں سے فرما دیجیے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘خواتین کے لیے علیحدہ ارشاد فرمایاگیا:’’اے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم! ایمان والی عورتوں سے فرما دیجیے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘
٭…جو شخص غیر محرم سے اپنی نظر بچائے گا اللہ پاک اس کو عبادت و ایمان میں لذت عطا کرے گا ٭…بد نظری کا سب سے بڑا مرکز بازار ہیں،تاجر بھائیوں کا فرض ہے اس مصیبت سے خود بچیں، دوسروں کو بچائیں ٭
خطیب درد دل منتقل کرنے میں شاید بڑی حد تک کامیاب ہوچکا تھا۔ فرمان باری تعالی سن کر کچھ آنکھیں بھیگتی نظر آئیں۔ وہ بدنظری کی مزید سنگینیاں شمار کروانے لگا: ’’بد نظری سے انسان کے دل میں تخم پڑجاتا ہے، جو موقع ملتے ہی سر اٹھاتا ہے۔ قابیل نے ہابیل کی بیوی کے حسن وجمال پر بد نظر ڈالنے کی وجہ ہی سے اپنے بھائی کو قتل کردیا اور دنیا میں سب سے پہلی نافرمانی کا مرتکب ہوا۔قرآن میں اس کے فعل کا تذکرہ ہوا ہے۔ گناہ کی بنیاد ڈالنے کی وجہ سے قیامت تک جتنے قاتلین آئیں گے ان کا بھی بوجھ اس کے سر ہوگا۔ اسی لیے پہلی نظر سے بچنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔مشکوۃ شریف کی حدیث ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے، زبان کا زنا بات کرنا ہے، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے، پاؤں کا زناچلنا ہے، دل آرزو اور تمنا کرتا ہے،شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔‘‘یعنی ان میں جو عضو شہوت اور فحش کاموں میں استعمال ہو گا، اس عضو کا زنا شمار ہو گا۔
خطیب نے اپنا مدعا ایک اور زاویے سے بتانا شروع کیا۔ وہ کہہ رہاتھا: ’’صاحبِ عقل اگر غور کریں تو خوب سمجھ آئے کہ نظر کھٹک پیدا کرتی ہے، کھٹک سوچ کو وجود بخشتی ہے، سوچ شہوت کو ابھارتی ہے اور شہوت ارادے کوجنم دیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا زنا کا ارادہ تب ہوتا ہے، جب انسان غیر محرم کو دیکھتا ہے۔ اگر دیکھے گا ہی نہیں تو ارادہ بھی نہیں ہوگا۔ بد نظری زنا کی پہلی سیڑھی ہے۔ مثل مشہور ہے: دنیا کا سب سے لمبا سفر ایک قدم اٹھانے سے شروع ہوجاتا ہے۔‘‘اسی طرح زنا کا سفر بد نظری سے شروع ہوتا ہے۔ مومن کو چاہیے پہلی سیڑھی ہی چڑھنے سے پرہیز کرے۔‘‘
خطیب کہہ رہا تھا: ’’سچ جانیے تو بد نظری کا سب سے بڑا مرکز بازار ہیں۔ میرے بازار میں بیٹھنے والے بھائیوں کا فرض ہے اس مصیبت سے خود بچیں، دوسروں کو بچائیں۔ ایک اور حدیث پاک سنیے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: میں غیور ہوں تو اللہ تعالیٰ تو مجھ سے زیادہ غیور ہے، غیرت ہی کی وجہ سے اللہ نے ظاہر و باطن فواحش کو حرام کر دیا۔‘‘ یعنی بد نظری فحش کاموں کا مقدمہ ہے، جو اس کا ارتکاب کرتا ہے اللہ جل شانہ کو غیرت آتی ہے، اپنے دربار عالی سے اس کو ملعون کر دیتا ہے۔ بد نظری کرنے والوں کو اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔‘‘
اعتراف اور عزم کی چمک سے مجمع جگمگا اٹھا تھا۔ خطیب نے اس گناہ سے باز آنے پر اللہ تعالی کا ایک عظیم انعام بتلایا۔ اس نے کہا: ’’مسند احمد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی منقول ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے ڈر کی وجہ سے بد نظری چھوڑی، میں اسے ایسا ایمان عطا کروں گا، جس کی حلاوت وہ دل میں محسوس کرے گا۔‘‘ تقریر کے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے اس نے کہا: ’’کتنا عظیم سودا ہے بد نظری کی وقتی اور عارضی لذت کو چھوڑنے پر ایمان کی دائمی حلاوت نصیب ہوتی ہے۔ پس جو شخص غیر محرم سے اپنی نظر بچائے گا اللہ پاک اس کو عبادت و ایمان میں لذت عطا کرے گا۔ دیکھو! یہ تو وہ نعمت ہے جو سب کچھ خرچ کرنے پر بھی نہ خرید سکنے والی دولت ہے۔