امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ
جّۃ الاسلام امام ابو حامد محمد بن احمد الغزالی رحمتہ اللہ علیہ بلاشبہ پانچویں صدی ہجری کے مجدد ہیں۔ آپ کی پیدائش خراسان کے شہر طابران ۴۵۰ھ ۱۰۵۲ء میں ہوئی ۔آپ کی کنیت ابو حامد تھی ،آپ کے خاندان میں سوت اور دھاگے کا کام ہوتا تھا اسی لئے آپ کو غزّالی کہتے ہیں ۔
امام غزالی ابھی پندرہ سال کے تھے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ،اس وقت آپ کے چھوٹے بھائی احمد غزالی ۱۲-۱۳سال کے تھے ۔والد کے انتقال کے بعد ان دونوں حضرات کی تعلیم وتربیت اور پرورش وپرداخت کی ذمہ داری والدِ ماجد علیہ الرحمہ کی وصیت کے مطابق ان کے ایک صوفی دوست ابو حامد احمد بن محمد زاز کانی نے نبھائی اوران حضرات کی تعلیم وتربیت پر اپنا پیسہ بھی صرف کیا ۔
طابران میں آپ نے احمد بن محمد جو اپنے وقت کے جید عالم دین تھے ان سے کسب علم کیا اس کے بعد جرجان میں علامہ ابو نصر اسمٰعیلی سے اکتساب ِفیض کیا ۔حصول علم کا شوق آپ کو طوس سے کھینچ کر نیشا پور کے مدرسہ نظامیہ لے آیا ۔وہاں آپ نے اس وقت کے سب سے بڑے عالم امام الحرمین علامہ جوینی علیہ الرحمہ سے شرف تلمذ حاصل کیا اور علوم وفنون میں یکتائے روزگار ہوئے ۔مام غزالی ایران کے رہنے والے تھے ۔ فارسی ان کی مادری زبان تھی ۔ان کی کم از کم پانچ کتابیں فارسی زبان میں ہیں ۔ کیمیائے سعادت کو توعالمگیر شہرت و مقبولیت حاصل ہے ۔ امام غزالی نے فارسی میں خطوط نویسی بھی کی اور شاعری بھی ۔
علامہ جوینی کے انتقال کے بعد ۴۷۸ھ میں بادشاہ وقت نے امام غزالی کو امام الحرمین کے منصب پر فائز کیالیکن اس کے لئے آپ کو ایک بڑی مشکل راہ سے گزرنا پڑا۔اس منصب تک پہنچنے کے لئے آپ کو اس عہد کے اکابر علماء اور اہل علم سے مناظرہ کرنا پڑا۔ بالآخر آپ کے سامنے تمام علماکی گردنیں خم ہوگئیں او رسب کو اعتراف کرنا پڑا کہ امام غزالی علم وادب کے جس بلند مقام تک سوخ رکھتے ہیں اس سے معاصرین کاکوئی حصہ حاصل نہیں۔امام صاحب کے تَبَحُّرِعلمی کے اعتراف میں علم دوست اور علماء نواز بادشاہ نظام الملک طوسی نے تمام علماء اور فقہاء پر تقدم اور اظہار ِ فضیلت کے لئے زَین الدین ،شرف الائمہ کا لقب دیا ،امام صاحب ۴۷۸ھ سے ۴۸۴ھ تک پوری دلجمعی اور انہماک کے ساتھ درس وتدریس اور کار تصنیف میں لگے رہے آپ کی درسگاہ میں سو سو ڈیڑھ ڈیڑھ سو اور بعد میں ہزار طلبہ شریک ہونے لگے ۔
مدرسہ نظامیہ بغداد کے مدرس اعلیٰ علامہ حسین بن علی طبری کے انتقال کے بعد آپ کو نیشا پور چھوڑ کر بغداد کے مدرسہ نظامیہ کے مدرس اعلیٰ کا منصب قبول کرنا پڑا۔اس وقت آپ کی عمر ۳۴ سال کے قریب تھی۔ کسی عالم کے لئے نظامیہ بغداد کی صدارت کا عہدہ اس وقت کا سب سے بڑا اعزاز و اکرام تھا ۔۔تقریباً۴۸۸ھ تک امام غزالی مدرسہ نظامیہ بغداد کی مسند تدریس پر جلوہ افروز رہے اور اسی درمیان میں آپ نے فلسفہ کے رد میں بہت سی کتابیں تحریر فرمائیں جن میں ،،مقاصد الفلاسفہ،اور’’ تھافۃ الفلاسفہ ‘‘خاصی مشہور ہیں ۔ آپ نے فلاسفہ کے ان مقامات کی کھل کروضاحت کی جہاں ان لوگوں نے ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان کے گمراہ کن اور کفریہ عقائدکی نشاندہی کی ، ان علوم کے فوائد ونقصانات کو بھی بیان کیا ۔ امام ابو الحسن اشعری سے لے کر ان کے زمانہ تک کسی بھی عالم نے فلسفہ کے رد میں اس طرح نہیں لکھا تھا کہ لوگو ں پر ان کی حقیقت واضح و روشن ہوجائے اس طرح باطنیہ پر قلم اٹھایا تو اس کے باطل اورخفیہ عقائد کی پول کھول کر رکھ دی جب کہ وہ لوگ بے انتہا قوت کے مالک ان کا اثر پورے اصفہان ،عراق اور شام میں تھا اوربڑے سے بڑے حکام کو ایسے پر اسرار طریقے سے قتل کردیا کرتے تھے کہ لوگوں کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔لیکن امام نے اپنے قلم سے ان کے بھی کمر توڑدیے۔
آپ امام شافعی کے مقلد تھے اور اصول میں اشعری کے، آپ نے فقہ شافعی میں الوجیز اور الوسیط جیسی مایہ ناز کتابیں تصنیف کیں۔آپ اس درجے کے متکلم تھے کہ اسلام کی کلامی روایت کو عظمت و رفعت کی ان بلندیوں تک پہونچایا کہ بعد کے لوگ صرف ان کی خوشہ چینی ہی کر سکے اس پر مزید اضافہ نہیں کر سکے ۔عالم اسلام میں کندی،فارابی،مسکویہ اور ابن سینا جیسے متعدد فلاسفہ گزر چکے تھے لیکن سب کے سب فلسفہ کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے، امام غزالی نے پہلی دفعہ خود فلسفہ کا فلسفہ کے اصولوں کی روشنی میں تجربہ کیا اور انہوں نے واضح کیا کہ فلسفہ الہیاٰت کے جن حقائق کی تلاش میں سر گرداں ہے وہ حقائق اس کے دائرہ تحقیق سے ماورا ہیں ۔ اور جن طبیعاتی حقائق کی تلاش ہے ،وہ یقیناًاس کے دائرہ میں ہیں ۔البتہ بیشتر چیزیں ظنی ہیں قطعی نہیں چوں کہ فلسفہ کے ذرائع علم ظنی ہیں قطعی نہیں ۔
تاریخ اسلام میں امام غزالی کی اصل انفرادیت یہی ہے کہ انہوں نے ہر فکر و نہج کا اور ہر نقطۂ نظر کا جائزہ خود لیا۔ اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو پرکھا اور پھر عمیق روحانی تجربات کے ذریعہ حقائق و معارف کی وہ روشنی حاصل کی جو خود ان کے لیے بھی فکری رہنمائی اور دوسروں کے لئے نور ہدایت بن گئی ۔
بعض لوگوں کی تحریر وں سے ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ امام غزالی ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھتے تھے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا عقیدہ یہ تھا کہ جو کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ان سب پر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار ہے ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام غزالی ہر کلمہ خواں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے ورنہ باطنیہ کا رد کیوں کرتے ؟۔
سلطنت سلجو قیہ کے وزیر اعظم خوا جہ نظام الملک طوسی ، اما م غزا لی کے بڑے معتقد تھے اور ہمیشہ آپ کی دل جوئی کرتے کہ امام صاحب نیشاپور چھوڑ کر بغداد، دمشق وغیرہ ہجرت نہ کر جا ئیں۔کیوں کہ امام غزا لی تما م بلاد اسلامی میں معروف تھے اور ہر سلطان و والئی مدرسہ یہ چا ہتا تھا کہ وہ اس کے دارالسلطنت میں آجا ئیں ۔ لیکن ۴۸۴ھ میں مدرسہ نظامیہ بغداد کے مدرس اعلیٰ علا مہ حسین بن علی طبری کے وصال کے بعد نظام الملک کی استدعا ء پر امام غزالی علیہ الرحمہ اس منصب اعلیٰ کو قبو ل کر کے بغداد آنا پڑا ۴۸۸ھ تک آپ اس عہدے پر متمکن رہے۔۴۸۵ھمیں ملک شاہ سلجوقی کا انتقال ہو گیاجو کہ ایک عا دل و کرم گستر با دشاہ تھا اس کے انتقال کے بعد اس کے تینوں پیٹے بر کیا رق ، محمد اور سنجر حکو مت کے دعوے دار ہو گئے اور جسکو جہاں تک قوت واقتدار حا صل تھا وہ اس پر قابض ہو گیا سلطا ن محمد اور سلطان برکیارق میں ایک مدت تک نہا یت خونریز جنگیں ہو تی رہیں جس کے نتیجے میں شہر کے شہر تبا ہ ہو گئے دیہات و قصبات میں خاک اڑنے لگیں۔ ہزا روں جا نیں ضا ئع ہو گئیں،امن وامان غارت ہو گیا۔(ابن الاثیر واقعات۴۹۷ء)
یہ سب کچھ ہو تا رہا لیکن بہت سے علما ئے دین اس خیا ل سے ’’خاموش تماسا ئی‘‘بنے بیٹھے دیکھتے رہے کہ ان کا کام جناز ے کی نماز پڑھا نا اور و ضو و طہارت کے مسا ئل کا بتا دینا ہے ۔ لیکن امام غزالی کی حا لت تما م علما ء سے ا لگ تھی۔اس وقت ملک کی اصلاح کا سب سے بڑا کا م یہ تھا کہ نہا یت آزادی و دلیری سے سلا طین کو انکے عیوب و مظالم سے مطلع کیا جا ئے اور عام لو گوں کو یہ بتا یا جائے کہ ان پر ہر شخص کو یہی حق حا صل ہے ۔امام غزالی علیہ الرحمۃ نے ان دو نوں فر ضوں کو نہا یت خو بی سے ادا کیا۔سلا طین کے مقابل میں جو چیز لو گوں کو آزا دی سے روکتی تھی و ہ یہ تھی کہ اہل علم و اہل قلم دو نوں ہی عمو ما سلاطین کے وظیفہ خوار تھے اور ان کے دربا ر میں آمد و رفت رکھتے تھے اس لئے آپ نے سب سے پہلے اس کا قلع قمع کیا او ران دو نوں با توں کو نا جا ئز و حرام قرار دیا۔آپ کے بہت سے نصائح اور اصلاحی خیا لات جو شاہان وقت کے جبرو استبدادسے ملک و قوم کو متعارف کرنے کے لیے جاری ہوے ان میں سے بہت احیا ء العلوم میں آپ نے بیان کیے جو آپکے زما نے میں ہی گھر گھر پھیل گئے تھے ، لیکن اسی پر قنا عت نہیں کی بلکہ خا ص طور پر سلا طین وقت کو اس قسم کی تحریریں بھیجیں۔محمد بن ملک شاہ کو جو سلطان سنجر کا بڑا بھا ئی اور اپنے زما نے کا سب سے بڑا باد شاہ تھا اس کو نصیحت کرتے ہوے مستقل ایک کتاب ہی لکھ ڈالی جو’’نصیحۃ الملوک‘‘کے نام سے مشہور ہے،جب کہ یہ کام اس وقت کرنا ایک ناممکن سا کام تھا۔ امام غزالی علیہ الرحمۃ نے جن وزراء کو خطوط لکھے ان میں فخر الملک و صدرالدین محمد احمد بن نظام الملک صدر الوزراء و عید الملک مجیر الدین شہید شہاب الاسلام جیسے بڑے بڑے وزراء شا مل ہیں ۔
٥٥ سال کی عمر میں دوشنبہ ١٤ جمادی الاخریٰ ۵۰۵ھ کو وصال فرمایا اور طوسی میں دفن ہوئے اﷲ آپ کی قبر پر رحمت کی بارش برسائے آمین