““ سچ کی تلاش ““
----------------------
گاندھی اپنی Ù…Ø+فل میں براجمان سارے سامعین Ú©Ùˆ Ù…Ø+Ùˆ رکھے ہوئے تھا Û”Û” سب لوگ اُس Ú©ÛŒ بات کا ہر لفظ اپنے اندر سموئے آنکھوں Ú©ÛŒ Ù¹Ú©Ù¹Ú©ÛŒ باندھے ہوئے تھے Û”Û”Û”Û”Û”
گاندھی نے جوش خطابت کو ہوا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جھومتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
““ God is truth ““ ( خدا سچ ہے )
Ù…Ø+فل میں بیٹھے ایک صآØ+ب علم Ù†Û’ فورا گاندھی Ú©ÛŒ بات میں لقمہ ڈالا اور جسارت بھرے لہجے میں کہا Û”Û”
لیکن کچھ لوگ تو خدا میں یقین ہی نہیں رکھتے ۔۔ پھر یہ سچ کیا ہوا ؟؟
گاندھی مسکرایا اور اپنی بات کو شاطرانہ انداز میں تبدیل کر کے فوری جواب دیا
““ Truth is God ““ ( سچ خدا ہے )
بعد ازاں یہ تاریخی جملہ گاندھی کی کتاب کا سرورق بن گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل علم و دانش !!
خدا Ú©ÛŒ پہچان کےلئے مذاہب عالم Ú©Û’ پاس ایسے عقیدے ہیں جنہوں Ù†Û’ اُس Ú©Ùˆ کسی فوق الفطرت Ø´Û’ سے تعبیر کیا Û”Û”Û”Û”Û” Û”Û”Û”Û” بعد میں ان ادیان Ú©ÛŒ تعلیم میں انسانی کلاکاری کا انگ نمایاں ہو گیا Û”Û” جس سے خدا ایک مادی تعبیر میں ہمارے سامنے آیا Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” مختلف شکلوں ØŒ انسان نما مجمسوں وغیرہ میں اس Ú©ÛŒ منظم Ùˆ متشکل جھلک بنائی گئی اور اسطرØ+ اس Ú©ÛŒ لامØ+دودیت Ú©Ùˆ ایک Ù…Ø+دود پیرائے میں ڈھال دیا گیا Û”Û”Û” اس Ú©ÛŒ وجہ انسان Ú©ÛŒ ناقص زہنی Ø+دود تھی جس سے باہر وہ نابالغ تھا ØŒ طفلِ فہم تھا Û”Û”Û”
اسی انداز کو غالب نے ایک مصرعہ میں خوب کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ جو مکاں ہوا وہ لامکاں کیونکر ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
اسلام کا انداز یکتا Ùˆ اعلیٰ ہے Û”Û” وہ اپنی تعریف میں بہت بلند Ùˆ فراست انداز اپناتا ہے Û” اسلام کا “ ایمان بلغیب “ مصنوعی انداز کا نہیں ہے جسے Ø+قیقت کا روپ دینے کےلئے کسی متشکل جسم Ú©ÛŒ ضرورت ہو Û”Û”
پھر خدا سچ کیسے ہے ؟؟؟
سادہ سی بات ہے مظاہر فطرت میں خدا Ú©ÛŒ پہچان اور سچائی اُس Ú©ÛŒ بنائی تخیلق میں نظر آتی ہے Û”Û” وہ اپنی صفات سے اپنی سچائی Ú©ÛŒ سمت متعین کرتا ہے Û”Û”Û” جس کا اظہار اپنے کلام ( ÙˆØ+ÛŒ ) سے عیاں کرتا ہے Û”Û”
ÙˆØ+ÛŒ یقینیات ہے Û”Û”Û” ÙˆØ+ÛŒ Ø+قیقت اعلیٰ ہے Û”Û” ÙˆØ+ÛŒ غیر مبدل ہے Û”Û”Û”Û” ÙˆØ+ÛŒ مظاہر کا عکس ہے Û”Û” پوری کائنات اُس Ú©ÛŒ ÙˆØ+ÛŒ میں ڈوبی ہوئی ہے Û”Û” یہ انداز انتہائی جازب عقل Ùˆ نظر ہے Û” اسلئے خدا Ù†Û’ اپنے مخاطب کا انتخاب کرنے میں عقل والوں Ú©Ùˆ ترجیع دی ہے اور اگر کوئی اس قطار میں شامل نہیں ہوا تو اُسے یتفکرو تدبرو Ú©ÛŒ تلقین Ú©Û’ ساتھ قطار میں کھڑا کرنے کا سلیقہ بھی سیکھایا ہے Û”Û”
پھر جو جو عقل استعمال کرتا ہے خدا اُسے اپنا ““ بندہ ““ کہتا ہے Û”Û” قرآن مجید میں عقل یافتہ انسان Ú©Ùˆ رØ+مٰن Ú©Û’ بندے کہہ کر مخاطب کیا ہے Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”
گویا ثابت ہوا کہ ۔۔۔۔۔!!!!
““ انسان سے بندے تک کی مسافت عقل کا اُڑن کھٹولا لیئے سچ کی فضائوں میں غور و فکر کرنے سے مشروط ہے ““