اس نے وہ رسالہ واپس لفافے میں ڈالا اور لفافے کو شیشے کی صندوقچی میں بند کرنے کے بعد ٹرنک میں اس کی سابقہ جگہ پر رکھ دیا۔ اسکی پسلیوں کو جیسے کسی گیلی رسی سے کس کر باندھ دیا گیا

تھا۔ ہر سانس Ú©Û’ ساتھ درد Ú©ÛŒ ٹیس اٹھتی تھی۔ مزید Ú©Ú¾Ú‘Û’ رہنا ناممکن ہوگیا تھا۔ وہ سوکھے پتے کیطرØ+ کانپتا ہوا فرش پر بیٹھ گیا۔ کیا یہی وہ قیامت تھی جس کا اللہ Ù†Û’ وعدہ کیا تھا۔ ہر کسی Ú©ÛŒ اپنی اپنی

قیامت ہوتی ہے۔ جب گھاس کے تنکے پر بارش کی بوند گرتی ہے تو تنکے پر بیٹھی ہوئی چیونٹی یہ ہی سمجھتی ہوگی کہ کائنات فنا ہونے لگی ہے۔ وہ ایک بوند اس چیونٹی کی قیامت ہوتی ہے۔

(بشریٰ سعید کے ناول ’’سفال گر‘‘ سے اقتباس)