مجھے دوستوں سے گلہ نہیں
جو نصیب میں نا تھا ملا نہیں
کیا شکایت کروں جو ہوئے اجنبی
مجھے دوستوں نے یہ حق بھی دیا نہیں
مجھے افسووس ہے تو بس یہی
حق دوستی کا ان سے ادا ہوا نہیں
میں سنور گئی میں اجڑ گئی
میں بہار بن کر گزر گئی
میری حسرتوں سے تھی دشمنی
میری آرزو کا گل کھلا نہیں
وہ بھی دوست تھے جو سجاتے تھے
میرے نام سے اپنی محفلیں
میری بات سے میرے ذکر تک
میرے نام سے چلتے تھے ان کے سلسلے
یہ جو زخم ملے تحفے ہے ان کے دئے ہوئے
یہ جو درد دل میں مقیم ہے
یہ بھی ان سے ہے ملے ہوئے
میری امیدوں کو لگا کے نشتر
میری خواہشوں کو مار گئے خنجر
وہ بھی دوست تھے وہ بھی تھی دوستی
جو کبھی اپنے بنے نہیں
جو کبھی ساتھ میرے چلے نہیں
وہ بھی دوست تھے وہ بھی تھی دوستی
جو دوستی کے نام سے کررہے تھے دشمنی
میرے راستوں سے میری منزلوں تک
جن کا آج تک کوئی نشاں نہیں
میرے دوستوں میں مجھے آج تک
سچا دوست کوئی ملا نہیں
شاعرہ ریشم ۔۔۔