یہ ایک شامی عالم شیخ مصطفی السباعیؒ کی سیرت پر کتا ب: السیرۃ ا لنبویۃ دروس و عبر سے اقتباس ہے۔پڑھیے اور اپنے ایمان کو تازہ کیجیے۔
----------------------------------
سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ - کیوں؟
ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہمارے لیے کامل نمونہ ہے۔ ہمارا یہ دعوی صرف عقیدت اور محبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے اور تاریخ کی گواہی بھی یہی ہے کہ ہر انسان کی کامیابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے۔
سیرت نبوی کی متعدد خصو صیات ہیں جن کے مطالعہ سے نہ صرف یہ کہ تاریخی واقعات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ روح و عقل کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ یہ مطالعہ جہاں علمائے کرام، دین کے داعیوں اور اجتماعی و سماجی مصلحین کے لیے بے حد ضروری ہے وہیں عام مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ جان لیں کہ مشکلات ومسائل اور دکھوں اور پریشانیوں کا واحد علا ج اسلام ہی ہے۔ہم ذیل میں سیرت نبوی کی چند خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں۔
پہلی خصوصیت
یہ ایک نبی، ایک عظیم ترین مصلح کی صحیح تر ین سیرت ہے۔ یہ سیرت ہم تک اس طریقے سے پہنچی ہے جس سے اس نبی کی زندگی کے نمایاں واقعات اور اہم حالات کی سچائی میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جا تا۔ سیرت نبوی کی یہ خصوصیت شک و شبہ سے خالی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اس صفت میں کوئی نبی و رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی سیرت صحیح ڈھنگ میں آج موجود نہیں ہے اور آپ کی سچی سیرت کا پتہ لگانے کے لیے موجودہ تو رات کا سہارا بھی نہیں لیا جاسکتااس لیے کہ علما ئے یہود نے اس میں ترمیم و تبدیلی کر دی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت کا حال بھی یہی ہے۔ چنانچہ جس مجموعے کو انجیل کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے لکھنے والوں کے بارے میں بہت اختلاف ہے کہ وہ کون لوگ تھے اور کس زما نے کی پیداوار تھے؟
یہ تو دنیا کے مختلف مذاہب کے انبیاء اور رسولوں کی سیرتوں کا حال ہے، رہا دوسرے نظریات کے بانی اور فلسفیوں کی سیرتوں کا حال تو بس کاہنوں کی من گھڑت کہانیاں اور کچھ قصے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے رہے ہیں جنہیں ضد و عصبیت سے آزاد روشن عقل کبھی صحیح نہیں مان سکتی۔ غرض یہ کہ صحیح تر ین سیرت اور علمی دلائل اور تواتر کی حد تک سچائی کو پہنچی ہوئی زندگی بس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی ہے!
دوسری خصو صیت
ہم رسول اللہ علیہ وسلم کی زند گی کے تمام مراحل سے پوری طرح واقف ہیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کی شادی سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک پوری زندگی سے آگاہ ہیں۔ ہم آپ کی ولادت، بچپن، جوانی، نبوت سے پہلے کے روز گاراور کمائی، مکہ کے با ہر اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر کر نا، پھرنبی بننا غرض یہ کہ سا رے حا لا ت اچھی طرح جا نتے ہیں۔ پھر ا س کے بعد سال بہ سال مکمل حا لا ت نہا یت واضح، مکمل اور نما یاں شکل میں ہمارے سا منے ہیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سورج سے بھی زیا دہ روشن ہو جاتی ہے۔ آپ کی نجی زندگی، ا ٹھنا بیٹھنا، کھا نا پینا، لباس شکل و صورت، گفتگو، خاندان کے لوگوں سے معاملہ اور برتاؤ، عبادت و نماز، دوستوں کی صحبت و معاشرت غرض یہ کہ پوری زندگی ہماری نگاہوں کے سامنے ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنے والوں کی محنت اتنی زیادہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک اور داڑھی میں موجود سفید بالوں کی تعدادتک بیان کر ڈالی ہے۔ اس کی مثال کسی دوسرے رسول کی زندگی میں نہیں ملتی۔ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ آخری نبی ہو کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔
تیسری خصوصیت
اﷲ کے رسول کی سیرت ایک ایسے انسان کی سیرت ہے جسے اﷲ نے اپنا رسول بنایا تھا لیکن یہ سیرت انسانی حدود و اختیار سے باہر نہیں ہے۔ مفید نصیحتوں، میٹھی میٹھی باتوں اور اچھی اچھی تعلیمات کی دنیا میں کمی نہیں، کمی جس چیز کی ہے وہ کام اور عمل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس بات کی دعوت دی خود اپنے عمل سے اس کو قابل عمل ثابت کیا۔ صلح و جنگ، فقر و دلت مندی، بندے اور رب کا تعلق، انسانوں کے آپس کے تعلقات، معاشرتی زندگی، ذاتی زندگی غرض یہ کہ ہر پہلو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی مثال پیش کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر عمل کیا اور ان کے بعد بھی کروڑوں انسانوں نے اس پر عمل کرکے اس کے عملی ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔در حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر اس انسان کے لیے مکمل انسانی نمو نہ اور ا سوہ ہے جو خود شرافت کی زند گی بسر کرنا چاہتا ہے اور اپنے خاندان اور ماحول میں پاکیزہ رہنا چاہتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں کہتا ہے:
{در حقیقت تم لوگوں کے لیے اﷲ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اﷲ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو} (احزاب: ۲۱)
چو تھی خصو صیت
یہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے جو ہمیں وہ دلیلیں فراہم کرتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت کی سچائی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہنے دیتیں۔ یہ ایک انسان کامل کی سیر ت ہے جو اپنی دعوت کو لے کر مر حلہ وار آگے بڑھا۔ معجزوں کے بل پر نہیں بلکہ فطری طریقے سے سارے مراحل طے کیے۔ دعوت دی تو ستا ئے گئے۔ تبلیغ کی تو ساتھیوں کی جماعت فراہم ہوئی۔ فاقے کیے، وطن چھوڑا۔جنگ پر مجبور ہوئے تو اس سے بھی نہ رکے۔ خود زخم کھائے ساتھیوں نے جانیں قربان کیں، آپ کی قیادت حکمت اور عقلمندی کا شاہکار تھی۔ چنانچہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے آپ کی دعوت تلوار کے زور پر نہیں بلکہ دعوت و عمل کے راستے سے پورے عر ب پر چھا چکی تھی۔ جس شخص کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی تاریخ معلوم ہے وہ جانتا ہے کہ عربوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طرح مخالفت کی، آپ کو قتل کرنے کی جو سازشیں کیں، آپ پر جنگ مسلط کی۔ اس کے باوجود ہر معرکہ میں افرا د اور اسلحہ کی کمی کے باوجود آپ کو فتح نصیب ہوئی، صلح اور معاہدوں کو تا وفات آپ نے جس طرح نبھایا اور تئیس (۲۳) سال کی مختصر مدت میں جس طرح آپ کی دعوت پھیلی، اور جو قوت و طاقت حاصل ہوئی وہ اس وجہ سے ہوئی کہ آپ درحقیقت اﷲ کے نبی تھے اور یہ کہ جو شخص جھوٹا ہو اس کی اس طرح کی مدد اللہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت عقل کی بنیاد پر بھی اپنی نبوت کی سچائی و حقانیت ثابت کرتی ہے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو معجزات آپ سے صادر ہوئے، وہ عربوں کے ایمان لانے کا بنیادی سبب نہیں تھے بلکہ ہمیں کوئی ایسا معجزہ نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے کافروں نے اسلام قبول کر لیا ہو، بلکہ جو لوگ بھی مسلمان ہوئے عقل و وجدان کے اطمینان کے ذریعہ ہی مسلمان ہوئے۔ اور جب کفار قریش نے پچھلی قوموں کی طرح معجزات کا مطالبہ کیا تو اﷲ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ جواب میں کہیں:
{اور انھوں نے کہا ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں نکال دے۔ یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا اللہ اور فر شتوں کو ہمارے سامنے لے آئے یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے، اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے پاس ایک ایسی تحریر نہ ا تار لائے جسے ہم پڑھیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو: پاک ہے میرا پروردگار،کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور کچھ بھی ہوں۔} (بنی اسرائیل:۹۰تا۹۳)
مزید یہ کہ معجزات بس دیکھنے والوں کے خلاف ہی دلیل بن سکتے ہیں اور بعد کے جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا، نہ آپ کے معجزات کو دیکھا وہ محض عقلی و قطعی دلائل کی وجہ سے آپ پر ایمان لائے اور ان عقلی دلائل میں سرفہرست قرآن کر یم ہے۔ یہ کتاب ایک عقلی معجزہ ہے جو ہر انصاف پسند اور صاحب عقل کو اس امر پر مجبور کر دیتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق و سچّائی اور نبوت و رسالت کی صداقت پر ایمان لائے۔ سورہ عنکبوت میں اﷲ تعالیٰ صاف کہتا ہے :
{یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ ا تاری گئیں اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے؟ کہو نشانیاں تو اﷲ کے پاس ہیں اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر۔ اور کیا ا ن لوگوں کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لیے جوایمان لاتے ہیں۔} (عنکبوت:۵۰،۵۱)
جو شخص قرآن کا مطالعہ گہرائی سے کرے گا وہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کتاب نے اطمینان وسکون بخشنے کے لیے عقل کے فیصلے، محسوس و نظر آنے والے مناظر اور مکمل معرفت کا سہارا لیا ہے کیونکہ رسول امی تھے اور اس ا میّت کو قرآن نے آپ کی نبوت کی صداقت پر دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
آپ کی سیرت اس حوالے سے تمام دوسرے انبیاء کی سیرتوں سے قطعی مختلف ہے جن کی سیرتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ عوام ان پر ایمان اسی وقت لائے جب ان کے ہاتھوں انہوں نے معجزات و خوارق دیکھ لیے۔ ان کی دعوت کے اصولوں اور قواعد کی سچائی میں انہوں نے عقل کے فیصلہ کو نہیں مانا۔ اس کے برخلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایک فرد بھی معجزات یا خارق عادت کسی چیز کو دیکھ کر ایمان نہیں لایا اسی طرح قرآن بالکل واضح اعلان کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہیں، رسول ہیں اور یہ کہ رسالت کے دعوے میں معجزات و خوارق پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو عقلوں اور دلوں کو مخاطب کرتا ہے:
{پس جسے اﷲ ہدا یت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔} (انعام:۱۲۵)
پا نچویں خصوصیت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور شعبوں کے لیے تعلیمات دیتی ہے۔ یہ ہما رے سامنے اس نو جوان کی زندگی پیش کرتی ہے جو رسالت سے پہلے سچے اور امانت دار کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ اس رسول کی زندگی ہمارے سامنے رکھتی ہے جو ایک اﷲ کی دعوت دیتا تھا اور اپنی دعوت کو پھیلانے کے لیے بہترین طریقے اختیار کرتا تھا۔ اپنے پیغام کو پہنچا نے میں ا نتہا درجہ کی طاقت اور صلاحیت اور محنت صرف کر تا تھا۔ اسی طرح ہمارے سامنے ایک ایسے سربراہ مملکت کی تصویر آ تی ہے جو اپنی مملکت کے لیے بہترین اور صحیح ترین انتظام کرتا تھا اور اپنی سمجھداری اور ہوشمندی، اخلاص و صداقت کے ذریعہ اس کی حفاظت کرتا تھا جس سے اس کی کا میابی یقینی ہو جاتی تھی۔ اسی طرح ہمارے سامنے ایک ایسے نبی کی زندگی ہے جو شوہر تھا، باپ تھا، شفقت و محبت کا پیکر، معاملات کا درست شوہر، بیوی بچوں کے تمام حقوق و ذمہ داریوں کو ادا کرنے والا تھا۔ ا یسا رسول جو مرشد مربی تھا، اپنے ساتھیو ں کی ایسی مثالی تربیت کرتا تھا کہ اپنا دل ان کے دلوں میں اتار دیتا اور اپنی روح ا ن کی ارواح میں بسا دیتا تھا جس کی وجہ سے چھوٹے بڑ ے تما م معاملات میں اس کے حکم کی اتباع کرتے تھے۔ بہترین دوست جو دوستی کی ذمہ داریاں پہچانتا اور انہیں اچھی طرح ادا کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کے ساتھی اس سے اپنی جان سے ز یادہ محبت کرتے تھے، ا پنے اہل عیال اورعزیزوں سے زیادہ اسے محبوب رکھتے تھے۔ ایک سپہ سالار، ایک کامیاب جج، ایک کامیاب معلم، ایک کامیاب رہبر، ایک کامیاب سیاسی قائد، امانت دار تا جر اور سچا معاہدہ کرنے والا، غرض یہ کہ اللہ کے رسول کی سیرت زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے اور ہر داعی، ہر رہبر، ہر باپ، ہر شوہر، ہر دوست، ہر مربی، سیاستداں، سربراہ مملکت وغیرہ کے لیے بہترین نمو نہ ہے۔
ہم اس درجہ مکمل یا اس سے ملتی جلتی جامعیت کہیں نہیں پاتے۔ تاریخ ہمارے سامنے جن افراد کو کامیاب بنا کر پیش کرتی ہے وہ زندگی کے کسی ایک ہی میدان میں نمایاں ہوئے اور اس میں شہرت پائی۔ وہ تنہا انسان جو تمام طبقوں، گروہوں اور ہر فرد کے لیے نمونہ بن سکتا ہے بس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے۔