١٩ رمضان - یوم حضرت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی اور تیسری اولاد تھیں۔ آپ ہجرت مدینہ سے انیس سال قبل مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے تین سال بعد اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ازدواجی بندھن کو آٹھ سال بیت چکے تھے۔ آپ کی عمر سات سال تھی جب آپ کے والد محترم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا اور آپ اعلانِ نبوت کے پہلے ہی روز مشرف یہ اسلام ہوئیں۔
نکاحِ اول
ظہورِ اسلام سے قبل اس دور کے دستور اور رواج کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ساتھ اپنی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے چچا ابو لہب کے دو بیٹوں بالترتیب عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ کر دیا۔ کم سنی کے یہ نکاح صرف انتسابِ نکاح تھے۔ رخصتی نہیں ہوئی تھی۔
اعلانِ نبوت کے بعد جب مشرکین مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کئے تو ابو جہل اور ابو لہب ان بدبختوں میں سب سے آگے تھے۔ بدزبانی اور بدکلامی کرنے والوں کی پیشوائی ابو لہب کی بیوئی ام جمیل کر رہی تھی۔ ابو لہب اور اس کی بیوی نے اپنے بیٹوں پر زور دیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کو طلاق دے دیں چنانچہ یہ ازدواجی بندھن ختم ہو گئے۔
نکاح ثانی
اس کے چند ہی روز بعد سردار الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہترین رفیق اور دوست حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی پھوپھی زاد بہن ارویٰ کے بیٹے تھے۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو طلاق ہو گئی تو اپنی داما دی کا فخر عطا کرنے کے لئے سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگہ انتخاب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر پڑی۔ اسی اثناء میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے نکاح کا پیغام آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بصد مسرت منظور فرمالیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا عقد ہجرتِ مدینہ سے پہلے ہوا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جب مسلمانوں کو کفار کی ایذارسانی سے بچانے کے لئے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا تو حبشہ کی طرف روانہ ہونے والے پہلے گروہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھے۔ یہ واقعہ رجب 5 نبوی کا ہے۔
ہجرت حبشہ کے کچھ عرصہ بعد وہاں جانے والے مسلمانوں تک یہ افواہ پہنچی کہ مکہ والوں نے اسلام کی مخالفت چھوڑ دی ہے اور مسلمان وہاں امن وچین سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔چنانچہ جو لوگ ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے ، وہ واپس لوٹ آئے۔
مکہ پہنچ کر انہیں پتہ چلا کہ انہیں ملنے والی خبر غلط تھی اور مکہ والوں کی اسلام دشمنی میں تو پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنے والوں کو حکم دیا کہ واپس لوٹ جائیں چنانچہ سن 6 نبوت کے آغاز میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا واپس حبشہ لوٹ گے۔ اس مرتبہ حبشہ میں ان کا قیام کافی عرصہ رہا اور یہیں پرخدا نے انہیں ایک بیٹا بھی عطا کیا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ اسی بیٹے کی نسبت سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ مشہور ہوئی۔ عبداللہ نے چھ سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔
جب مسلمانوں نے مدینہ ک طرف ہجرت کی تو اس کی خبر حبشہ بھی پہنچی۔ یہ خبر سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ مطہرہ اور چند دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مکہ واپس آگئے تاکہ سب مسلمانوں کے ساتھ مدینہ منورہ کو جا سکیں۔ واپسی پر ایک المناک خبر نے ان کا استقبال کیا۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی والدہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو چکا تھا۔
ہادی کون ومکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت مبارکہ کے مطابق حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچے۔ اگرچہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی یہ تیسری ہجرت تھی لیکن ہجرت الی الحبشہ اور ہجرت الی المدینہ کے اعتبار سے آپ ذات الہجرتین یعنی دو ہجرتوں والی کہلاتی ہیں۔
وفات
٢ ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا ۔ غزوہ بدر پر روانگی کے لئے تیاریاں جاری تھیں کہ اسی دوران حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار پڑ گئیں۔ انہیں خسرہ کی بیماری لاحق ہو گئی تھی۔ مرض کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہدایت کی کہ وہ مدینہ میں قیام فرمائیں اور غزوہ میں حصہ نہ لیں۔
ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ بدر کے لئے روانہ ہوئے۔ ادھر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے مرض کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا اور آخر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیر موجودگی میں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آپ کی عمر 21 برس تھی۔ ان کی تجہیز وتکفین کے تمام امور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انجام دئیے۔
غزوہ بدر میں فتح کی خوشخبری لے کر جب زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی۔ جب یہ اندوہناک خبر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی قبر پر تشریف لے گئے۔ اس موقع پر حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گئیں اور اپنی بہن کے غم میں آپ ان کی قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگیں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں تسلی دی اور صبر و سکون کی تلقین فرمائی۔