بعض لوگ چینی Ú©Û’ برتن Ú©ÛŒ طرØ+ ٹوٹتے ہیں، کہ مسالے سے آسانی سے جڑ تو جاتے ہیں مگر وہ بال اور جوڑ پہلے نظر آتا ہے، برتن بعد میں۔ اس Ú©Û’ برعکس Ú©Ú†Ú¾ ڈھیٹ اور Ú†Ù¾Ú©Ùˆ لوگ ایسے اٹوٹ مادے Ú©Û’ بنے ہوتے ہیں کہ چیونگ Ú¯Ù… Ú©ÛŒ طرØ+ کتنا ہی چباؤ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتے۔ کھینچنے سے کھنچتے ہیں، Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Û’ سے جاتے ہیں سکڑ، آپ انہیں Ø+قارت سے تھوک دیں تو جوتے سے اس بری طرØ+ چپکتے ہیں کہ چھٹائے سے نہیں چھوٹتے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اس سے تو دانتوں تلے ہی بھلے تھے کہ پپول تو لیتے تھے۔ یہ چیونگ Ú¯Ù… لوگ خود آدمی نہیں، پر آدم شناس ہیں۔ یہ کامیاب Ùˆ کامران کامگار لوگ ہیں۔ یہ وہ ہیں جنہوں Ù†Û’ انسانوں Ú©Ùˆ دیکھا، پرکھا اور برتا ہے اور جب اسے کھوٹا پایا تو خود بھی کھوٹے ہوگئے۔ وقت Ú©ÛŒ اٹھتی موج Ù†Û’ اپنے Ø+باب کا تاج ان Ú©Û’ سر پر رکھا اور ساعت گزران Ù†Û’ اپنے تختِ رواں پہ بٹھایا۔
اور Ú©Ú†Ú¾ ایسے بھی ہیں کہ کار Ú©Û’ ونڈ اسکرین Ú©ÛŒ مانند ہوتے ہیں۔ ثابت Ùˆ سالم ہیں تو سینہ عارف Ú©ÛŒ طرØ+ شفاف کہ دوعالم کا نظارہ کرلو، اور یکایک ٹوٹے تو ایسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا نہ در، کہ نہ تڑخے۔ یکبارگی ایسے ریزہ ریزہ ہوئے کہ ناعارف رہا، نہ دوعالم Ú©ÛŒ جلوہ گری، نہ آئینے کا پتا کہ کہاں تھا، کدھر گیا۔ نہ Ø+ذر رہا نہ خطر رہا، جو رہی سو بے خبری رہی۔
اور ایک انا ہے کہ یوں ٹوٹتی ہے جیسے جابر سلطانوں کا اقبال یا Ø+ضرت سلیمان کا عصا جس Ú©ÛŒ ٹیک لگائے وہ Ú©Ú¾Ú‘Û’ تھے کہ روØ+ قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ لیکن ان کا قالب بے جان ایک مدت تک اسی طرØ+ استادہ رہا اور کسی Ú©Ùˆ شبہ تک نہ گزرا کہ وہ رØ+لت فرما Ú†Ú©Û’ ہیں۔ وہ اسی طرØ+ بے روØ+ Ú©Ú¾Ú‘Û’ رہے اور ان Ú©Û’ اقبال اور رعب Ùˆ دبدبے سے کاروبارِ سلطنت Ø+سبِ معمولِ سابق چلتا رہا۔ ادھر عصا Ú©Ùˆ دھیرے دھیرے Ú¯Ú¾Ù† اندر سے کھاتا رہا، یہاں تک کہ ایک دن وہ چٹاخ سے ٹوٹ گیا اور Ø+ضرت سلیمان کا جسدِ خاکی فرشِ زمین پر آرہا۔ اس وقت ان Ú©ÛŒ امت اور رعیت پر کھلا کہ وہ دنیا سے پردہ فرماچکے ہیں۔
(مشتاق اØ+مد یوسفی Ú©ÛŒ کتاب ’’آبِ گم‘‘ Ú©Û’ مضمون ’’Ø+ویلی‘‘ سے اقتباس)