-
Jannat Ki Talaash ...
میں ایک بانمازی انسان ہوں ۔ میں نے پانچ حج کئیں ہیں ۔ میں ہر نیک کام میں شرکت کرتا ہوں ۔ آج میں جو بھی ہوں اور جو بھی میری والدہ کے فضل وکرم سے ہی ہوں۔ وہ بیوہ ہونے کے باوجود انھوں نے ہمارے ہاتھ میں علم کا ہتھیار دیں دیا، یہ ایک ایسا ہتھیار تھا جو ہمیں اللہ کے سوا کسی کا محتاج نا رکھیں ۔ حالات سے لڑنے والا ہتھیار ، اچھی تعلیم وتربیت انھوں نے عطا کی مجھے ۔ علم کی روشنی سے میرا مستقبل روشن کرنے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔ بچپن سے ان کی نگرانیاں اور ان کی حراست ایسی تھی میری تعلیم کو لیکر جیسے کوئی سپاہی سرحدوں کے لئے چوکا چوند ہو ، وہ میرے مستقبل کی سپاہی تھی ،جو میرا درب روشن کرنے میں جوٹی ہوئی تھی بغیر کسی مقصد اور بغیر کسی لالچ کے۔ وہ بس چاہتی تھی کے ہم کبھی کسی بھی مخلوق کے محتاج نا رہیں ۔ میرے پاس آج بفضل اللہ اور ان کے آج سب کچھ ہے۔ میں اللہ کا شکر گزار ہوں ۔ بہت بڑا بیزنس ہے آج تجارت کی دنیا میں بہت مشہور ہوگیا ہوں ۔ بڑا گھر ۔ بڑی گاڑی اور بڑا سا بینک اکاؤنتٹ ہر بنک کے ویزا کارڈ اور بہت سی برانچ بھی بنا لی تھی۔ لیکن اللہ کی عبادت کو میں کبھی نہیں بھولا ۔، جب جہاں جو جو مسجد سامنے نظر آئی میں نماز کے لئے پہنچ جاتا تھا میں۔ اللہ کی ہر دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کاذریعہ تھا۔ یہ سب آپ کو بتا کر اپنی تعریف نہیں کر رہا ہوں ۔ میں بس یہ بتانا چاہتا ہوں کے میں نے جنت کی تلاش شروع کردی ۔ اور جنت کے اس سفر میں ہر نیک عمل کو دل سے انجام دیتا رہا ۔ اور میں مطمئن بھی تھا کے اتنے نیک اعمال کے بعد میں جنت کا مستحق ہوں ۔۔ رب کی رضا میں نے حاصل کرلی ہے ۔ غریبوں اور یتیموں کو بھی میں نہیں بھولا ، چئریٹی فنڈس میں بھی کوئی کمی نہیں کی ۔ اور میں خوش تھا کے اللہ نے مجھے انجاز بخشا اور میں اس کام کے لئے وصیلہ بنایا. میری عبادتوں کا مقصد رب کی رضا تھا اور جنتی کہلانا تھا ۔
انسان ہمیشہ یہی گماں کرتا ہے کے وہ بہت نیک ہے ۔ اور اس نے کافی نیک کام کر لئے ہیں ۔ اور وہ خود کو ہی اسلام کا رہنما سمجھتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کے مجھ میں دین کی بہت سی صلاحیت ہے ،اور میں نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا ۔ اور اس نے دین کا تحافظ بنکر جنت حاصل کرلی ہے ۔ ہم جب اسلام کی روشنی میں خود کو دیکھیں گر تو کبھی مکمل اپنے نظریہ سے نہیں ہوسکتے ۔ اسلام کی تعبداری قرآن سے حاصل کرکے اس کی پروی مکمل کرنا ہر انسان کو یہ انجاز حاصل نہیں ہوتا ۔ نقص دین کی بھول کہیں نا کہیں ہم چھوڑ جاتے ہے ۔ ہم غلطیوں سے سیکھتے بھی ہیں ۔ اور اللہ بے نیاز ہے وہ اپنے بندوں کی توبہ بھی جلدہی قبول فرماتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں نیکیوں کے خزانے عطا کیئں ہیں اور ہم پھر بھی اللہ کی نا شکری کرنے سے باز نہیں آتے ۔ کتنے بے صبر ہوجاتے ہے زارا سی آزمایش سے، کتنے شکوہ آجاتے ہے زارا سی کمی پر ، اور پھر بھی درد میں اسی کو پکارتے ہے ۔ کیوں کے وہی ہمارا سچا رہنما سچا ہمدرد ہے ۔ اللہ ہمیں ہدایت عطا کرے اور ہماری نادانیوں کو معاف کریں ۔ میں دل ہی دل میں اپنے دل کو تسلی دیتا رہتا جنت کی تلاش میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے بہت خوش رہتا تھا کے میں نے رب کی رضا حاصل کرلی ہے ۔ آج یہ بے چینی تھی کیا میں واقعی مکمل مؤمن ہوں ۔؟ میری سوچیں بھی تھک کر سوجاتی تھی ہر نیک کام انجام دیتا ہوں پھر بھی سکون کی نیند نہیں آتی تھی سوچ سوچ کر پریشان ہوجاتا کے ایسا کیا ہے جو مجھے دیکھ نہیں رہا ۔یا اللہ تو مجھے دیکھا دے نفل نمازیں پڑھ کر اللہ سے بار بار یہ دعا مانگتا رہا ۔۔
میں اتنا بزی بزی رہتا تھا کام کے سلسلے میں کبھی سفر پر جاتا کئی دن تک۔ کبھی ادھر کبھی ادھر، امی اکثر کہتی بیٹا ایک فون کردیا کر ماں کا دل فکر سے پریشان رہتا ہے ۔ میں یہی کہہ کر ان کی بات ٹال دیتا امی کچھ نہیں ہوا مجھے میں ٹھیک ہوں ۔
مسلسل کام سےآدھی آدھی رات کو تھک جاتا ،اور پھر سونے کی کوشش کرتا تب بھی کوئی نا کوئی بات ذہن میں آکر مجھے مضطرب کرتی تھی ۔کے چین سے سو نہیں پاتا ۔۔
جب میرا دماغ میری اس بے چینی اور نیند نا آنے کی وجہ نا جان سکا تو میں ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ بھی کروایا ۔ ساری رپورٹ نارمل تھی ۔ امی بخار میں تپ رہی تھی جو انھیں پھر بھی میری فکر تھی وہ فون پر فون کر رہی تھی اور میں دوسری لائن پر بزنس کی باتیں کرتا رہا ۔۔ اور پھر انھیں فون کرنا بھول گیا ۔۔ کبھی کبھی ہم ان انسان باتوں کو بہت چھوٹا سمجھ کر ان کا خیال نہیں رکھتے ، غیروں میں خیر خواہ بنکر گھومتے ہیں ۔ اور ہمارے اپنوں کی نا فکر ہوتی ہے نا خیال ہمیں رہتا ہے ۔اورنا ہی اس کا ملال رہتا ہیں ۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہو رہا تھا ۔ کام کی مصروفیت کی وجہ سے میں ہمیشہ انھیں بھول جاتا یا ان کا فون نہیں اٹھاتا تھا ۔ یہی سوچ کر کچھ نا کچھ سوال کرے گی اور جواب کے بدلے میں بھی سوال کرے گی ۔ اور پھر نصیحتوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔ بیٹا کھانا کھایا گر نہیں کھایا تو فکر سے مجھے اپنی فکر کرنے پر مجبور کردیں گی ۔ٹائم نہیں ان کی فضول باتیں سننے کا اللہ مجھے معاف کرے کتنی آسانی سے میں اپنی ماں کی باتوں کو فضول کہہ کر ٹال دیتا تھا ۔ میری نا سمجھی تھی جو میں اکثر کرتا تھا لیکن بغیر قاصد کے اس سے میری امی کا دل دکھا ہونگا ۔ یا وہ پریشان ہوتی ہے ۔ یا انھیں تکلیف ہوئی ہونگی ۔
امی تجھ میں ہے کون کا صبر
امی تیری عطا ہے کلعطا البحر
تو ہے جنت میری تو ہی میری پہلی محبت
میری پہلی نفس کا احساس تو
تو آخری نفس میں دیتی ہے جنت کا بشر
کتنی صابر ہے تو کتنی رحیم ہے
تو میری غلطیوں کو کردیتی ہے سر بسر
تیری رضا پر جان لوٹا دوں گا اے ماں
میں تجھ پر قربان جاؤ پڑھ کرقرآن میں تیرا ذکر
تیرے آنسو مجھ پر عذاب ہے اے ماں
تیری رضا ہے ہے میری رحمت کا گھر
تیری گود میں ہے جنت کی مہک
تیرے قدموں میں جھکا رہے میرا یہ سر
اُف بھی نا بولو ہے یہ میرے قرآن کی آیت کا حکم
میرے رب کی رضا تو ہے ماں تو ہی میرا فخر
اللہ نے مجھے شاید اسی لئے کبھی پرسکون نیند نہیں عطا کی اور میری بے پناہ نیکیاں بھی نظر انداز ہوکر رہے گئی ۔ ذہن اتنا مصروف رہتاکے ہر وقت کام کا جنون دماغ پر رہتا اتنا کہ اپنا بھی خیال نہیں رہتا ۔ کبھی امی کی تیمار داری کے لئے وقت نہیں ملا ۔مجھے کبھی ان کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکا۔ دیر سےآتا وہ سو جاتی تھی صبح بنا بتائے اٹھ کر چلے جاتا ،اور وہ ناشتہ تو کھاتا جا بیٹا اور میں امی ٹائم نہیں کہہ کر تیز رفتار میں چلا جاتا ۔ اتنی شدت سے محنت کرنے کے با وجود مجھے چین نہیں تھا ۔ اللہ کا دیا تو سب ہے میرے پاس پھر ایسا کیا ہے میں بھول رہا ہوں یا اللہ مجھے تو وہ بتا دے جو مجھے سکون عطا کرے ۔ میری دعا ختم نہیں ہوئی تھی کے امی چائے لیکر آئی اور کہنے لگی آج بھی ماں کے ہاتھ کی چائے پیئے بنا جائےگا تو ۔۔؟
میں نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ میں نے ان کے ہاتھ سے کپ لے لیا ،اور کہا امی آپ بیٹھے اور بتائیں رو کیوں رہی ہے میں نے دیکھا وہ بخار میں تپ رہی تھی ۔ امی آپ کو تو بہت تیز بخار ہے ۔
کتنی دفعہ کہا کے گھر میں نوکر ہے آپ کام نا کیا کریں ۔ میں ابھی ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں ۔ امی مسکرا کر بولی بیٹا میری دوا تو تو ہے ۔ تیرے بغیر گھر کاٹنے کودوڑتا ہے ۔ تو چھٹی کے روز بھی مصروف رہتا ہے ۔ چند سانسیں رہ گئی ہے ۔ماں کی بات سن لیں ۔
بیٹا بہو لیں آ ، مرنے سے پہلے دادی تو بنا دیں مجھے ۔ دل میں ارمان رہ گیا بیٹا تجھے ہنستا بولتا اپنوں میں دیکھوں ۔ تونے تو جیسے سب سے رشتہ ہی توڑ دیا ۔ کتنا سونا ہوگیا میرا گھر اور وہ رونے لگی ۔ کتنا عظیم ہوتا ہے ماں کا دل جو اس بخار میں بھی شدت سے میری لئے ہی فکر مند تھا ۔ماں کی طہارت اور عظمت کو سمجھنے میں چوک گیا تھا میں ۔ امی آپ روئے نہیں دیکھیں آپ کی طبعیت ناساز ہے پہلے ہی بہت ، سب میری لاپرواہی کا نتیجہ ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا جسم پتھر کی طرح جم گیا اور ونھوں نے آنکھیں پھیر لی ۔ میں رونے لگا امی کچھ بولیں امی ۔ جیسا آپ چاہتی ہے میں ویسا ہی کروں گا ۔ ڈاکٹر نے فور! ایڈمیٹ کرنے کو کہا ۔ میری آنکھیں یہ منظر دیکھتے ہی رہ گئی یا اللہ یہ کیا ہوگیا مجھ سے ۔ میری ماں کے دل میں اتنا درد تھا اور وہ اتنی شدید بیمار تھی، تب بھی انھیں میرا ہی خیال تھا وہ کب سے بیمار تھی ، اور اپنا درد چھپا رہی تھی ۔۔ تاکہ میں پریشان نہیں رہوں ۔ میں نے ڈاکٹر کے ہاتھ پکڑ لئے اور فورس کرنے لگا ڈاکٹر میری امی کو بچا لیجئے پلیز ۔ ڈاکٹر نے کہا ہم ڈاکٹر کوشش کر سکتے ہے باقی اللہ بہتر کرنے والا ہے آپ دعا کریں ۔ دوا کے ساتھ دعا کی بھی انھیں ضرورت ہے ویسے جس طرح ان کی حالت ہے لگتا ہے انھیں گہراا صدمہ ہوا ہے ۔ سارے چیک اپ اور ٹریٹ مینٹ کے بعد ڈاکٹر نے بتایا ان کی ہارٹ بیٹ ایک دم لو و ہے اور یہ انھیں پہلا ہارٹ اٹیک آیا تھا ۔ اچھا ہوا اس وقت آپ نے فورًاً مجھے کال کی تھی ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔ بی پی بھی لوو ہے ہیموگلوبنگ اور کلشیوم ویٹامن ڈی سب بہت کم ہے ۔ ویکنس ہے بہت ۔ شاید کوئی ان کے کھانے پینے پر دھیان نہیں دیتا ۔ ہارٹ بیٹ ویک ہے ۔ان کے ہارٹ کی بوند بلوک ہوگئی ہے، نسیں بلوک ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف بھی ہے ، انھیں ہوش نہیں آرہا ہے وقت با وقت کوئی امپرو بھی نہیں آرہا ہے ۔ بیٹا دعا کی بہت ضرورت ہے ۔ ڈر ہے کہیں یہ کومہ میں نا چلی جایئں 24 گھنٹے میں گر ہوش آگیا تو شاید کچھ امید دیکھائی دیں ۔
یہ سب سن کر میرے ہوش کھو گئے ۔ میں ایک دم سہم گیا ۔ امی کو ہارٹ آٹیک آیا تھا ۔ ۔۔؟ یا اللہ شکر ہے میری عبادت کا کچھ تو صلا عطا کیا مجھے میں اس وقت گھر پر ہی تھا ۔ ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا ۔ میں ڈاکٹر کے سامنے روتے ہوئے ڈاکٹر آپ بھلے کتنا بھی پیسہ لیں لوں پر میری امی کو بچا لوں ۔ ڈاکٹر نے کہا بیٹا کچھ ہم ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو کچھ اوپر والے بڑے ڈاکٹروں کا ڈاکٹر ہے اب مسلہء اس کے ہاتھ میں ہے وہی چمکار دیکھائے کوئی ۔ روپیہ پیسہ کیا فائدہ کا جو میری امی کے کام نا آسکا آج ۔ میری آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے اور میں روتے ہوئے مسجد کیطرف رجوع ہو آذان کی نداء سن کر ۔ آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے ۔ یا اللہ مجھے معاف فرما ۔ مجھ سے یہ بھول ہوگئی ۔ میری اس خطا کو بخش دے ۔ میری والدہ شفا عطا کرمیرے مولا ، میں وعدہ کرتا ہو کہ میں ان کی خدمت کروں گا بس ایک موقعہ عطا کر میری امی کو شفا عاجل بخش دے یارب یا رب ، میں نے روتے روتے یہ دعا مانگی ۔
نماز کے بعد مسجد کے مولوی نے مجھے اس حال میں روتے دیکھا تھا تو پوچھنے لگے کیا پریشانی ہے بیٹا؟ میں نے سارا واقعہ انھیں بتا دیا ۔
وہ خفا ہوکر مجھ سے مخاتب ہویئں اور کہنے لگے سچ میں تو کتنا بڑا بے وقوف ہے ۔ توجس جنت کو پانے دن رات عبادت میں جوٹا رہتا تھا تیری اصل جنت تو تیرے ماں کے قدموں میں ہے ۔ اس جنت کو تو کیسے بھول سکتا ہے ۔۔؟تیرا ہر نیک عمل تیری ماں کی رضا کا محتاج تھا ۔ اور اسی وجہ سے اللہ تجھے آگاہ کر رہا تھا تیرا سکون چھین کر کہ اپنی جنت کو پہچان ۔ تیری تلاش کی منزل ماں کے قدموں میں تھی اور تو مارا مارا بھٹکتا رہا، تو ماں کی عظمت کو اور اس کی محبت کو اور اپنی جنت کو کیسے بھول گیا ۔۔؟ جا اب بھی وقت ہے اللہ ہمارے دلوں سے واقف ِحال ہے اور وہ بڑا غفور رحیم ہے جا ماں کے قدموں میں گر کے معافی مانگ لیں ۔ اللہ تجھے مایوس نہیں کرے گا انشاءاللہ
میں ڈوڑتا ہوہسپتال کی طرف پہنچا ۔۔ اور امی کے قدموں میں گر کر رونے لگا امی مجھے معاف کردیں امی۔ مجھ سے بھول ہوگئی ٓ۔۔
مجھے بخش دیں امی میں آپ کا گنہگار ہو ۔ امی میری نادانی کی اتنی بڑی سزا نا دیں ۔ میری کیفیت پر خدرا رحم فرمایئں میں بہت ٹوت چکا ہوں ما ں میری دینا میری خوشیا ں ساری آپ سے ہی وابسطہ ہے ۔ امی آپ کو کچھ ہوگیا تو میں بھی جی نہیں پاؤنگا ۔ میرے لئے امی آپ ٹھیک ہوجایئں ۔ میں وعدہ کرتا ہو اب سے کبھی آپ کا دل نا دکھاؤنگا معفا کردیں نا مجھے ۔ پلیز امی ۔ آپ جانتی ہے نا مجھے میں اکثر بھول جاتا ہوں ۔ میری جنت کی تلاش تو آپ سے ہی شروع اور آپ پر ہی ختم ہوتی ہے امی ۔ دیکھیں آپ کے ان قدموں ہی میری جنت ہے ۔ مجھے میری جنت میں رہنے کا ایک موقعہ دیں امی وہ ماں کے قدموں کو چوم کر رونے لگا ۔ یا اللہ میری نادانی کی اتنی بڑی سزا نا دیں یا رب میری امی کو شفا عطا کر مجھے معاف کردے مولا ، وہ گھنٹوں ماں کے قدموں میں رو رو کر گڑگڑانے لگا ۔ اور اللہ سے اپنی ماں کی سلامتی کی بھیک مانگتا رہا ۔ اس کے آنسو روک نہیں رہا تھے ڈاکٹر کے منع کرنے پر بھی وہ وہی ماں کے قدموں بیٹھا رہا ۔
اس کی ندامت کے آنسو روکے نہیں روک رہے تھے۔ وہ سب کچھ ترک کرکے صرف اور صرف اپنی ماں کے ہوش میں انے کے لئے بہت زیادہ فکر مند تھا ۔ اس کی توبہ اللہ نے قبول کرلی ۔ وہ روتا رہا ۔ بچپن کی باتیں دھراتا رہا ۔ امی یاد ہے نا آپ بچپن میں کیسے مجھے ڈانٹا کرتی تھی غلطیوں پر امی آج بھی مجھے ڈانٹیں چیخیں چلایئں وہ میری برکت تھی جو مجھے ہمیشہ نیک راہ دیکھاتی تھی، اور غلطی کا احساس دلاتی تھی ۔ امی آپ سب خاموشی سے سہتی رہی تو میں سمجھ ہی نہیں پایا آپ کی ناراضگی امی معاف کردیں نا میری نالائقی کو شدت سے روتے ہوئے جب اس نے تڑپ کے قدموں میں سر جھکا کر رونے لگا تو وہ قدموں کو ہلانے لگی تو وہ فوراً ان کے پاس گیا تو انھوں نے بیٹا کہتے ہوئے آنکھ جیسے ہی کھولی وہ ماں کے ہاتھ چوم کر پھر سے رونے لگا ۔ امی معاف کردیں ۔اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ نرس سے کہا ڈاکٹر کو بلایئں ۔ ڈاکٹر نے ان کی حالت میں امپروف دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے بولا اب خطرہ ٹل گیا ہے ۔ اللہ نے تیری دعا سن لی بیٹا تجھے تیری جنت لوٹا دی اب اس کی حفاظت تونے خود کرنی ہے ۔ بے شک اللہ ہدایت دینے والا ہے ۔
وہ شدت سے محسوس کرنے لگا تھا واقعی کے اس نے غلطی کی ہے اور اس غلطی یا بھول کا یہ انجام تھا کے اس کی ساری نیکیاں اور ساری عبادتیں ضائع تھی ماں کی رضا کے بنا ۔ اس کی جنت ہی ادھوری تھی مکمل جنت تو ماں کے قدموں میں ہی ہیں ۔ زرا سوچیں
ہم ایسی کئی غلطیاں جان بوجھ کر کرتے ہے ۔ کتنے ایسے نافرمان ہونگے ہم میں سے اور آپ میں سے جو اپنی جنت کو ہی نہیں سمجھ پاتے، اور ماں کا دل دکھاتے ہے ۔ انھیں جواب دیتے ہیں ان کی نافرمانی کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتے ۔ وہ بزرگ لوگ جو گھر کی برکت اور جنت کی شان کہلاتے انھیں رولاتے ہے ، انھیں بیوی کے کہنے پر گھر سے باہر نکال دیتے ہیں ۔ کیا آپ بتائے گے ایسے لوگ جنت کے مستحق ہے ؟ اور کیا آپ جنتی کہلانے کے لائق ہے ۔۔؟ جب ہم جانتے ہیں قرآن شریف کی آیتوں میں لکھا ہے فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا تو پھر ہم کیسے مسلمان ہے ؟جو قرآن پاک کی اللہ تعالی کی
مخالف کرتے ہوئے زرا سی بھی شکنج محسوس نہیں کرتے۔ ؟جس ماں باپ نے ہماری پرورش میں کوئی کمی نہیں کی ان کا جزء احسان
ہم کیسے چکاتے ہے یہ ہم خود جانتے ہے ۔ جس عمر میں انھیں ہماری ضرورت ہوتی ہے انھیں دارمسنین بھیج دیا جاتا ہے۔
اور نا سال دو سال میں گر کبھی ایک بار جاکر ان سے ملنے کا احسان کرکے ہم خود کوطعت اللہ کی پروی کا فرض احسان سمجھ کر کرتے ہے
کیا ہمیں معافی ملے گی ۔۔َ؟ کیا اس دار ِفانی میں ہم کبھی بوڑھے نہیں ہونگے ۔۔؟ کیا ہم ہماری اولاد سے ایسی ہی توقع رکھ سکتے ہے
جیسا کے ہم کرتے ہے ۔۔؟ بزرگ ماں باپ کی خدمت کرنا تو دور ان سے بات کرنے کے لئے کیا ہمارے پاس وقت ہیں؟
کیسے مسلمان ہے ہم ۔۔َ؟ جنت کے خواب تو دیکھتے ہے لیکن اپنی اصل جنت کو ہی بے گھر کر دیتے ہیں ۔
بے ادبی بدکلامی کیا ہم ہماری اولاد سے برداشت کر سکتے ہیں۔؟
اب بھی وقت ہے بھائیوں اور بہنوں اپنی اصل جنت کو پہچانو۔ کیوں کے جو آپ آج اپنے ماں باپ کے ساتھ کروگے
وہی آپ کی اولاد آپ کی ساتھ کرینگی خیال رہیں ۔ وقت بہت کم ہے ۔۔
زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور کل کیا ہونگا کس نے جانا ہے ۔۔
تو آج ہی ابھی جنت میں اپنی بوکنگ کرلیں ۔
ماں کے قدموں میں گر کر معافی مانگ لیں ۔
اللہ رحمت کے دروازے کھول دینگا وہ غفور رحیم ہے
اللہ آپ کے اور ہمارے والدین کو صحت وعافیت کے ساتھ
سلامت رکھے آمین
جنتی جنتی میں جنتی
تیرے قدموں میں گر کر میں بن گیا جنتی
تھی تلاش مجھ کو جنت کی بڑی
تیرے قدموں میں مل گئی جنت کی وہ خوشی
تیری رضا سے میں بن گیا جنتی
رب کی رحمت تیری رضا سے ملی
جنتی میں جنتی میں جنتی
تو ہی اے ماں میری جنتی
تیری رضا سے میں بن گیا جنتی
رائٹر ۔۔ ریشم
-
-
Lajawaaaaab!
Originally Posted by
*resham*
میں ایک بانمازی انسان ہوں ۔ میں نے پانچ حج کئیں ہیں ۔ میں ہر نیک کام میں شرکت کرتا ہوں ۔ آج میں جو بھی ہوں اور جو بھی میری والدہ کے فضل وکرم سے ہی ہوں۔ وہ بیوہ ہونے کے باوجود انھوں نے ہمارے ہاتھ میں علم کا ہتھیار دیں دیا، یہ ایک ایسا ہتھیار تھا جو ہمیں اللہ کے سوا کسی کا محتاج نا رکھیں ۔ حالات سے لڑنے والا ہتھیار ، اچھی تعلیم وتربیت انھوں نے عطا کی مجھے ۔ علم کی روشنی سے میرا مستقبل روشن کرنے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔ بچپن سے ان کی نگرانیاں اور ان کی حراست ایسی تھی میری تعلیم کو لیکر جیسے کوئی سپاہی سرحدوں کے لئے چوکا چوند ہو ، وہ میرے مستقبل کی سپاہی تھی ،جو میرا درب روشن کرنے میں جوٹی ہوئی تھی بغیر کسی مقصد اور بغیر کسی لالچ کے۔ وہ بس چاہتی تھی کے ہم کبھی کسی بھی مخلوق کے محتاج نا رہیں ۔ میرے پاس آج بفضل اللہ اور ان کے آج سب کچھ ہے۔ میں اللہ کا شکر گزار ہوں ۔ بہت بڑا بیزنس ہے آج تجارت کی دنیا میں بہت مشہور ہوگیا ہوں ۔ بڑا گھر ۔ بڑی گاڑی اور بڑا سا بینک اکاؤنتٹ ہر بنک کے ویزا کارڈ اور بہت سی برانچ بھی بنا لی تھی۔ لیکن اللہ کی عبادت کو میں کبھی نہیں بھولا ۔، جب جہاں جو جو مسجد سامنے نظر آئی میں نماز کے لئے پہنچ جاتا تھا میں۔ اللہ کی ہر دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کاذریعہ تھا۔ یہ سب آپ کو بتا کر اپنی تعریف نہیں کر رہا ہوں ۔ میں بس یہ بتانا چاہتا ہوں کے میں نے جنت کی تلاش شروع کردی ۔ اور جنت کے اس سفر میں ہر نیک عمل کو دل سے انجام دیتا رہا ۔ اور میں مطمئن بھی تھا کے اتنے نیک اعمال کے بعد میں جنت کا مستحق ہوں ۔۔ رب کی رضا میں نے حاصل کرلی ہے ۔ غریبوں اور یتیموں کو بھی میں نہیں بھولا ، چئریٹی فنڈس میں بھی کوئی کمی نہیں کی ۔ اور میں خوش تھا کے اللہ نے مجھے انجاز بخشا اور میں اس کام کے لئے وصیلہ بنایا. میری عبادتوں کا مقصد رب کی رضا تھا اور جنتی کہلانا تھا ۔
انسان ہمیشہ یہی گماں کرتا ہے کے وہ بہت نیک ہے ۔ اور اس نے کافی نیک کام کر لئے ہیں ۔ اور وہ خود کو ہی اسلام کا رہنما سمجھتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کے مجھ میں دین کی بہت سی صلاحیت ہے ،اور میں نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا ۔ اور اس نے دین کا تحافظ بنکر جنت حاصل کرلی ہے ۔ ہم جب اسلام کی روشنی میں خود کو دیکھیں گر تو کبھی مکمل اپنے نظریہ سے نہیں ہوسکتے ۔ اسلام کی تعبداری قرآن سے حاصل کرکے اس کی پروی مکمل کرنا ہر انسان کو یہ انجاز حاصل نہیں ہوتا ۔ نقص دین کی بھول کہیں نا کہیں ہم چھوڑ جاتے ہے ۔ ہم غلطیوں سے سیکھتے بھی ہیں ۔ اور اللہ بے نیاز ہے وہ اپنے بندوں کی توبہ بھی جلدہی قبول فرماتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں نیکیوں کے خزانے عطا کیئں ہیں اور ہم پھر بھی اللہ کی نا شکری کرنے سے باز نہیں آتے ۔ کتنے بے صبر ہوجاتے ہے زارا سی آزمایش سے، کتنے شکوہ آجاتے ہے زارا سی کمی پر ، اور پھر بھی درد میں اسی کو پکارتے ہے ۔ کیوں کے وہی ہمارا سچا رہنما سچا ہمدرد ہے ۔ اللہ ہمیں ہدایت عطا کرے اور ہماری نادانیوں کو معاف کریں ۔ میں دل ہی دل میں اپنے دل کو تسلی دیتا رہتا جنت کی تلاش میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے بہت خوش رہتا تھا کے میں نے رب کی رضا حاصل کرلی ہے ۔ آج یہ بے چینی تھی کیا میں واقعی مکمل مؤمن ہوں ۔؟ میری سوچیں بھی تھک کر سوجاتی تھی ہر نیک کام انجام دیتا ہوں پھر بھی سکون کی نیند نہیں آتی تھی سوچ سوچ کر پریشان ہوجاتا کے ایسا کیا ہے جو مجھے دیکھ نہیں رہا ۔یا اللہ تو مجھے دیکھا دے نفل نمازیں پڑھ کر اللہ سے بار بار یہ دعا مانگتا رہا ۔۔
میں اتنا بزی بزی رہتا تھا کام کے سلسلے میں کبھی سفر پر جاتا کئی دن تک۔ کبھی ادھر کبھی ادھر، امی اکثر کہتی بیٹا ایک فون کردیا کر ماں کا دل فکر سے پریشان رہتا ہے ۔ میں یہی کہہ کر ان کی بات ٹال دیتا امی کچھ نہیں ہوا مجھے میں ٹھیک ہوں ۔
مسلسل کام سےآدھی آدھی رات کو تھک جاتا ،اور پھر سونے کی کوشش کرتا تب بھی کوئی نا کوئی بات ذہن میں آکر مجھے مضطرب کرتی تھی ۔کے چین سے سو نہیں پاتا ۔۔
جب میرا دماغ میری اس بے چینی اور نیند نا آنے کی وجہ نا جان سکا تو میں ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ بھی کروایا ۔ ساری رپورٹ نارمل تھی ۔ امی بخار میں تپ رہی تھی جو انھیں پھر بھی میری فکر تھی وہ فون پر فون کر رہی تھی اور میں دوسری لائن پر بزنس کی باتیں کرتا رہا ۔۔ اور پھر انھیں فون کرنا بھول گیا ۔۔ کبھی کبھی ہم ان انسان باتوں کو بہت چھوٹا سمجھ کر ان کا خیال نہیں رکھتے ، غیروں میں خیر خواہ بنکر گھومتے ہیں ۔ اور ہمارے اپنوں کی نا فکر ہوتی ہے نا خیال ہمیں رہتا ہے ۔اورنا ہی اس کا ملال رہتا ہیں ۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہو رہا تھا ۔ کام کی مصروفیت کی وجہ سے میں ہمیشہ انھیں بھول جاتا یا ان کا فون نہیں اٹھاتا تھا ۔ یہی سوچ کر کچھ نا کچھ سوال کرے گی اور جواب کے بدلے میں بھی سوال کرے گی ۔ اور پھر نصیحتوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔ بیٹا کھانا کھایا گر نہیں کھایا تو فکر سے مجھے اپنی فکر کرنے پر مجبور کردیں گی ۔ٹائم نہیں ان کی فضول باتیں سننے کا اللہ مجھے معاف کرے کتنی آسانی سے میں اپنی ماں کی باتوں کو فضول کہہ کر ٹال دیتا تھا ۔ میری نا سمجھی تھی جو میں اکثر کرتا تھا لیکن بغیر قاصد کے اس سے میری امی کا دل دکھا ہونگا ۔ یا وہ پریشان ہوتی ہے ۔ یا انھیں تکلیف ہوئی ہونگی ۔
امی تجھ میں ہے کون کا صبر
امی تیری عطا ہے کلعطا البحر
تو ہے جنت میری تو ہی میری پہلی محبت
میری پہلی نفس کا احساس تو
تو آخری نفس میں دیتی ہے جنت کا بشر
کتنی صابر ہے تو کتنی رحیم ہے
تو میری غلطیوں کو کردیتی ہے سر بسر
تیری رضا پر جان لوٹا دوں گا اے ماں
میں تجھ پر قربان جاؤ پڑھ کرقرآن میں تیرا ذکر
تیرے آنسو مجھ پر عذاب ہے اے ماں
تیری رضا ہے ہے میری رحمت کا گھر
تیری گود میں ہے جنت کی مہک
تیرے قدموں میں جھکا رہے میرا یہ سر
اُف بھی نا بولو ہے یہ میرے قرآن کی آیت کا حکم
میرے رب کی رضا تو ہے ماں تو ہی میرا فخر
اللہ نے مجھے شاید اسی لئے کبھی پرسکون نیند نہیں عطا کی اور میری بے پناہ نیکیاں بھی نظر انداز ہوکر رہے گئی ۔ ذہن اتنا مصروف رہتاکے ہر وقت کام کا جنون دماغ پر رہتا اتنا کہ اپنا بھی خیال نہیں رہتا ۔ کبھی امی کی تیمار داری کے لئے وقت نہیں ملا ۔مجھے کبھی ان کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکا۔ دیر سےآتا وہ سو جاتی تھی صبح بنا بتائے اٹھ کر چلے جاتا ،اور وہ ناشتہ تو کھاتا جا بیٹا اور میں امی ٹائم نہیں کہہ کر تیز رفتار میں چلا جاتا ۔ اتنی شدت سے محنت کرنے کے با وجود مجھے چین نہیں تھا ۔ اللہ کا دیا تو سب ہے میرے پاس پھر ایسا کیا ہے میں بھول رہا ہوں یا اللہ مجھے تو وہ بتا دے جو مجھے سکون عطا کرے ۔ میری دعا ختم نہیں ہوئی تھی کے امی چائے لیکر آئی اور کہنے لگی آج بھی ماں کے ہاتھ کی چائے پیئے بنا جائےگا تو ۔۔؟
میں نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ میں نے ان کے ہاتھ سے کپ لے لیا ،اور کہا امی آپ بیٹھے اور بتائیں رو کیوں رہی ہے میں نے دیکھا وہ بخار میں تپ رہی تھی ۔ امی آپ کو تو بہت تیز بخار ہے ۔
کتنی دفعہ کہا کے گھر میں نوکر ہے آپ کام نا کیا کریں ۔ میں ابھی ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں ۔ امی مسکرا کر بولی بیٹا میری دوا تو تو ہے ۔ تیرے بغیر گھر کاٹنے کودوڑتا ہے ۔ تو چھٹی کے روز بھی مصروف رہتا ہے ۔ چند سانسیں رہ گئی ہے ۔ماں کی بات سن لیں ۔
بیٹا بہو لیں آ ، مرنے سے پہلے دادی تو بنا دیں مجھے ۔ دل میں ارمان رہ گیا بیٹا تجھے ہنستا بولتا اپنوں میں دیکھوں ۔ تونے تو جیسے سب سے رشتہ ہی توڑ دیا ۔ کتنا سونا ہوگیا میرا گھر اور وہ رونے لگی ۔ کتنا عظیم ہوتا ہے ماں کا دل جو اس بخار میں بھی شدت سے میری لئے ہی فکر مند تھا ۔ماں کی طہارت اور عظمت کو سمجھنے میں چوک گیا تھا میں ۔ امی آپ روئے نہیں دیکھیں آپ کی طبعیت ناساز ہے پہلے ہی بہت ، سب میری لاپرواہی کا نتیجہ ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا جسم پتھر کی طرح جم گیا اور ونھوں نے آنکھیں پھیر لی ۔ میں رونے لگا امی کچھ بولیں امی ۔ جیسا آپ چاہتی ہے میں ویسا ہی کروں گا ۔ ڈاکٹر نے فور! ایڈمیٹ کرنے کو کہا ۔ میری آنکھیں یہ منظر دیکھتے ہی رہ گئی یا اللہ یہ کیا ہوگیا مجھ سے ۔ میری ماں کے دل میں اتنا درد تھا اور وہ اتنی شدید بیمار تھی، تب بھی انھیں میرا ہی خیال تھا وہ کب سے بیمار تھی ، اور اپنا درد چھپا رہی تھی ۔۔ تاکہ میں پریشان نہیں رہوں ۔ میں نے ڈاکٹر کے ہاتھ پکڑ لئے اور فورس کرنے لگا ڈاکٹر میری امی کو بچا لیجئے پلیز ۔ ڈاکٹر نے کہا ہم ڈاکٹر کوشش کر سکتے ہے باقی اللہ بہتر کرنے والا ہے آپ دعا کریں ۔ دوا کے ساتھ دعا کی بھی انھیں ضرورت ہے ویسے جس طرح ان کی حالت ہے لگتا ہے انھیں گہراا صدمہ ہوا ہے ۔ سارے چیک اپ اور ٹریٹ مینٹ کے بعد ڈاکٹر نے بتایا ان کی ہارٹ بیٹ ایک دم لو و ہے اور یہ انھیں پہلا ہارٹ اٹیک آیا تھا ۔ اچھا ہوا اس وقت آپ نے فورًاً مجھے کال کی تھی ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔ بی پی بھی لوو ہے ہیموگلوبنگ اور کلشیوم ویٹامن ڈی سب بہت کم ہے ۔ ویکنس ہے بہت ۔ شاید کوئی ان کے کھانے پینے پر دھیان نہیں دیتا ۔ ہارٹ بیٹ ویک ہے ۔ان کے ہارٹ کی بوند بلوک ہوگئی ہے، نسیں بلوک ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف بھی ہے ، انھیں ہوش نہیں آرہا ہے وقت با وقت کوئی امپرو بھی نہیں آرہا ہے ۔ بیٹا دعا کی بہت ضرورت ہے ۔ ڈر ہے کہیں یہ کومہ میں نا چلی جایئں 24 گھنٹے میں گر ہوش آگیا تو شاید کچھ امید دیکھائی دیں ۔
یہ سب سن کر میرے ہوش کھو گئے ۔ میں ایک دم سہم گیا ۔ امی کو ہارٹ آٹیک آیا تھا ۔ ۔۔؟ یا اللہ شکر ہے میری عبادت کا کچھ تو صلا عطا کیا مجھے میں اس وقت گھر پر ہی تھا ۔ ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا ۔ میں ڈاکٹر کے سامنے روتے ہوئے ڈاکٹر آپ بھلے کتنا بھی پیسہ لیں لوں پر میری امی کو بچا لوں ۔ ڈاکٹر نے کہا بیٹا کچھ ہم ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو کچھ اوپر والے بڑے ڈاکٹروں کا ڈاکٹر ہے اب مسلہء اس کے ہاتھ میں ہے وہی چمکار دیکھائے کوئی ۔ روپیہ پیسہ کیا فائدہ کا جو میری امی کے کام نا آسکا آج ۔ میری آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے اور میں روتے ہوئے مسجد کیطرف رجوع ہو آذان کی نداء سن کر ۔ آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے ۔ یا اللہ مجھے معاف فرما ۔ مجھ سے یہ بھول ہوگئی ۔ میری اس خطا کو بخش دے ۔ میری والدہ شفا عطا کرمیرے مولا ، میں وعدہ کرتا ہو کہ میں ان کی خدمت کروں گا بس ایک موقعہ عطا کر میری امی کو شفا عاجل بخش دے یارب یا رب ، میں نے روتے روتے یہ دعا مانگی ۔
نماز کے بعد مسجد کے مولوی نے مجھے اس حال میں روتے دیکھا تھا تو پوچھنے لگے کیا پریشانی ہے بیٹا؟ میں نے سارا واقعہ انھیں بتا دیا ۔
وہ خفا ہوکر مجھ سے مخاتب ہویئں اور کہنے لگے سچ میں تو کتنا بڑا بے وقوف ہے ۔ توجس جنت کو پانے دن رات عبادت میں جوٹا رہتا تھا تیری اصل جنت تو تیرے ماں کے قدموں میں ہے ۔ اس جنت کو تو کیسے بھول سکتا ہے ۔۔؟تیرا ہر نیک عمل تیری ماں کی رضا کا محتاج تھا ۔ اور اسی وجہ سے اللہ تجھے آگاہ کر رہا تھا تیرا سکون چھین کر کہ اپنی جنت کو پہچان ۔ تیری تلاش کی منزل ماں کے قدموں میں تھی اور تو مارا مارا بھٹکتا رہا، تو ماں کی عظمت کو اور اس کی محبت کو اور اپنی جنت کو کیسے بھول گیا ۔۔؟ جا اب بھی وقت ہے اللہ ہمارے دلوں سے واقف ِحال ہے اور وہ بڑا غفور رحیم ہے جا ماں کے قدموں میں گر کے معافی مانگ لیں ۔ اللہ تجھے مایوس نہیں کرے گا انشاءاللہ
میں ڈوڑتا ہوہسپتال کی طرف پہنچا ۔۔ اور امی کے قدموں میں گر کر رونے لگا امی مجھے معاف کردیں امی۔ مجھ سے بھول ہوگئی ٓ۔۔
مجھے بخش دیں امی میں آپ کا گنہگار ہو ۔ امی میری نادانی کی اتنی بڑی سزا نا دیں ۔ میری کیفیت پر خدرا رحم فرمایئں میں بہت ٹوت چکا ہوں ما ں میری دینا میری خوشیا ں ساری آپ سے ہی وابسطہ ہے ۔ امی آپ کو کچھ ہوگیا تو میں بھی جی نہیں پاؤنگا ۔ میرے لئے امی آپ ٹھیک ہوجایئں ۔ میں وعدہ کرتا ہو اب سے کبھی آپ کا دل نا دکھاؤنگا معفا کردیں نا مجھے ۔ پلیز امی ۔ آپ جانتی ہے نا مجھے میں اکثر بھول جاتا ہوں ۔ میری جنت کی تلاش تو آپ سے ہی شروع اور آپ پر ہی ختم ہوتی ہے امی ۔ دیکھیں آپ کے ان قدموں ہی میری جنت ہے ۔ مجھے میری جنت میں رہنے کا ایک موقعہ دیں امی وہ ماں کے قدموں کو چوم کر رونے لگا ۔ یا اللہ میری نادانی کی اتنی بڑی سزا نا دیں یا رب میری امی کو شفا عطا کر مجھے معاف کردے مولا ، وہ گھنٹوں ماں کے قدموں میں رو رو کر گڑگڑانے لگا ۔ اور اللہ سے اپنی ماں کی سلامتی کی بھیک مانگتا رہا ۔ اس کے آنسو روک نہیں رہا تھے ڈاکٹر کے منع کرنے پر بھی وہ وہی ماں کے قدموں بیٹھا رہا ۔
اس کی ندامت کے آنسو روکے نہیں روک رہے تھے۔ وہ سب کچھ ترک کرکے صرف اور صرف اپنی ماں کے ہوش میں انے کے لئے بہت زیادہ فکر مند تھا ۔ اس کی توبہ اللہ نے قبول کرلی ۔ وہ روتا رہا ۔ بچپن کی باتیں دھراتا رہا ۔ امی یاد ہے نا آپ بچپن میں کیسے مجھے ڈانٹا کرتی تھی غلطیوں پر امی آج بھی مجھے ڈانٹیں چیخیں چلایئں وہ میری برکت تھی جو مجھے ہمیشہ نیک راہ دیکھاتی تھی، اور غلطی کا احساس دلاتی تھی ۔ امی آپ سب خاموشی سے سہتی رہی تو میں سمجھ ہی نہیں پایا آپ کی ناراضگی امی معاف کردیں نا میری نالائقی کو شدت سے روتے ہوئے جب اس نے تڑپ کے قدموں میں سر جھکا کر رونے لگا تو وہ قدموں کو ہلانے لگی تو وہ فوراً ان کے پاس گیا تو انھوں نے بیٹا کہتے ہوئے آنکھ جیسے ہی کھولی وہ ماں کے ہاتھ چوم کر پھر سے رونے لگا ۔ امی معاف کردیں ۔اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ نرس سے کہا ڈاکٹر کو بلایئں ۔ ڈاکٹر نے ان کی حالت میں امپروف دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے بولا اب خطرہ ٹل گیا ہے ۔ اللہ نے تیری دعا سن لی بیٹا تجھے تیری جنت لوٹا دی اب اس کی حفاظت تونے خود کرنی ہے ۔ بے شک اللہ ہدایت دینے والا ہے ۔
وہ شدت سے محسوس کرنے لگا تھا واقعی کے اس نے غلطی کی ہے اور اس غلطی یا بھول کا یہ انجام تھا کے اس کی ساری نیکیاں اور ساری عبادتیں ضائع تھی ماں کی رضا کے بنا ۔ اس کی جنت ہی ادھوری تھی مکمل جنت تو ماں کے قدموں میں ہی ہیں ۔ زرا سوچیں
ہم ایسی کئی غلطیاں جان بوجھ کر کرتے ہے ۔ کتنے ایسے نافرمان ہونگے ہم میں سے اور آپ میں سے جو اپنی جنت کو ہی نہیں سمجھ پاتے، اور ماں کا دل دکھاتے ہے ۔ انھیں جواب دیتے ہیں ان کی نافرمانی کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتے ۔ وہ بزرگ لوگ جو گھر کی برکت اور جنت کی شان کہلاتے انھیں رولاتے ہے ، انھیں بیوی کے کہنے پر گھر سے باہر نکال دیتے ہیں ۔ کیا آپ بتائے گے ایسے لوگ جنت کے مستحق ہے ؟ اور کیا آپ جنتی کہلانے کے لائق ہے ۔۔؟ جب ہم جانتے ہیں قرآن شریف کی آیتوں میں لکھا ہے فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا تو پھر ہم کیسے مسلمان ہے ؟جو قرآن پاک کی اللہ تعالی کی
مخالف کرتے ہوئے زرا سی بھی شکنج محسوس نہیں کرتے۔ ؟جس ماں باپ نے ہماری پرورش میں کوئی کمی نہیں کی ان کا جزء احسان
ہم کیسے چکاتے ہے یہ ہم خود جانتے ہے ۔ جس عمر میں انھیں ہماری ضرورت ہوتی ہے انھیں دارمسنین بھیج دیا جاتا ہے۔
اور نا سال دو سال میں گر کبھی ایک بار جاکر ان سے ملنے کا احسان کرکے ہم خود کوطعت اللہ کی پروی کا فرض احسان سمجھ کر کرتے ہے
کیا ہمیں معافی ملے گی ۔۔َ؟ کیا اس دار ِفانی میں ہم کبھی بوڑھے نہیں ہونگے ۔۔؟ کیا ہم ہماری اولاد سے ایسی ہی توقع رکھ سکتے ہے
جیسا کے ہم کرتے ہے ۔۔؟ بزرگ ماں باپ کی خدمت کرنا تو دور ان سے بات کرنے کے لئے کیا ہمارے پاس وقت ہیں؟
کیسے مسلمان ہے ہم ۔۔َ؟ جنت کے خواب تو دیکھتے ہے لیکن اپنی اصل جنت کو ہی بے گھر کر دیتے ہیں ۔
بے ادبی بدکلامی کیا ہم ہماری اولاد سے برداشت کر سکتے ہیں۔؟
اب بھی وقت ہے بھائیوں اور بہنوں اپنی اصل جنت کو پہچانو۔ کیوں کے جو آپ آج اپنے ماں باپ کے ساتھ کروگے
وہی آپ کی اولاد آپ کی ساتھ کرینگی خیال رہیں ۔ وقت بہت کم ہے ۔۔
زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور کل کیا ہونگا کس نے جانا ہے ۔۔
تو آج ہی ابھی جنت میں اپنی بوکنگ کرلیں ۔
ماں کے قدموں میں گر کر معافی مانگ لیں ۔
اللہ رحمت کے دروازے کھول دینگا وہ غفور رحیم ہے
اللہ آپ کے اور ہمارے والدین کو صحت وعافیت کے ساتھ
سلامت رکھے آمین
جنتی جنتی میں جنتی
تیرے قدموں میں گر کر میں بن گیا جنتی
تھی تلاش مجھ کو جنت کی بڑی
تیرے قدموں میں مل گئی جنت کی وہ خوشی
تیری رضا سے میں بن گیا جنتی
رب کی رحمت تیری رضا سے ملی
جنتی میں جنتی میں جنتی
تو ہی اے ماں میری جنتی
تیری رضا سے میں بن گیا جنتی
رائٹر ۔۔ ریشم
Posting Permissions
- You may not post new threads
- You may not post replies
- You may not post attachments
- You may not edit your posts
-
Forum Rules