nice
اگرچہ خوف کے عالم میں خواب ختم ہوا
لگا کہ روح پہ طاری عذاب ختم ہوا
یہ ملنا اور بچھڑنا ہے پانیوں کی طرح
کہ ایک لہر اٹھی نقش آب ختم ہوا
کسی کو پڑھ لیا ایک ہی نشست میں ہم نے
کوئی ضخیم تھا اور باب باب ختم ہوا
اگرچہ مرگ وفا ایک سانحہ تھا مگر
میں خوش ہوا کہ چلو یہ سراب ختم ہوا
مہک کے ساتھ ہی رنگت بھی اڑ گئی خالد
بچھڑ کے شاخ سے خود بھی گلاب ختم ہوا
(خالد شریف)
nice