مدت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی
کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال
باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی
کچھ کہتے آکے ہم تو سنا کرتے وے خموش
اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی
نکلے جو تھی تو بنتِ عنب عاصمہ ہی تھی
اب تو خراب ہوکر خرابات بھی گئی
عمامہ جاجماز گئے لے کے مغ بچے
واعظ کی اب لباسِ کرامات بھی گئی
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
(میر تقی میر)
1 - مدت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی