وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلادیں
محبت کریں خوش رہیں مسکرادیں
غرور اور ہمارا غرور محبت
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکادیں
جوانی ہو گر جاودانی تو یارب
تری سادہ دنیا کو جنت بنادیں
شب وصل کی بے خودی چھارہی ہے
کہو تو ستاروں کی شمعیں بجھادیں
بہاریں سمٹ آئیں کھِل جائیں کلیاں
جو ہم تم چمن میں کبھی مسکرادیں
وہ آئیں گے آج اے بہار محبت
ستاروں کے بستر پر کلیاں بچھادیں
بناتا ہے منہ تلخی مے سے زاہد
تجھے باغ رضواں سے کوثر منگادیں
تم افسانہ قیس کیا پوچھتے ہو
آؤ ہم تم کو لیلیٰ بنادیں
انہیں اپنی صورت پہ یوں ناز کب تھا
مرے عشق رسوا کو اختر دعا دیں
(اختر شیرانی)

5 - وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلادیں