4 Muharram - Youme Hazrat Khwaja Hasan Basri Radi Allahu Anhu
حضرت خواجہ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ
ولادت
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت21 ہجری میں پیدا ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں لعاب ڈالا اور نام بھی انہوں نے رکھا ۔ جب آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حضور میں لائے گئے تو انہوں نے آپ کو نہایت خوبرو دیکھ کر فرمایا کہ یعنی یہ حسین ہے اس لیے اس کا نام حسن رکھو۔ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے آپ کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کو دین کے علم کا ماہر بنا اور لوگوں میں محبوب بنا جو بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی اور آپ کو علمِ دین اور فقر میں بلند مرتبہ عطا ہوا۔
نام
آپ کا نام مبارک حسن، کنیت ابو محمد، ابو سعید، ابو النصر اور ابو علی تھی۔آپ کے والد موسی راعی زید بن ثابت انصاری کے آزاد کردہ غلام تھے۔ والدہ ماجدہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کی لونڈی تھیں انکی تربیت بھی ام المؤمنین نے ہی فرمائی ۔آپ کی والدہ کا نام خیرہ تھا
ابتدائی حالات
ابتدا میں آپ جواہرات بیچا کرتے تھے۔ اس لیے حسن لولوئی کے نام سے مشہور تھے۔ اس پیشے سے آپ نے بہت روپیہ کمایا۔ لیکن جب عشق الہی نے غلبہ ہوا تو سارا روپیہ راہ خدا میں لٹا دیا اور گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہوگئے۔خوف الہی سے ہر وقت روتے رہتے تھے۔ کثرت گریہ کے باعث آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے تھے۔ مزاج میں انکسار بہت تھا۔ آپ کے نزدیک زہد کی بنیاد حزن و الم ہے۔تصوف میں خوف و الم کا مسلک آپ ہی سے منسوب ہے۔ تمام اکابر صوفیاءآپ کو شیخ الشیوخ مانتے ہیں۔ آخر عمر میں بصرہ میں سکونت اختیار کر لی ۔
خرقہ خلافت
آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی بیعت سے مشرف ہوئے اور ان سے خرقہ فقر پایا۔ شاہِ ولایت امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کو وہ خرقۂ خاص مع کلاہِ چہار ترکی عنایت فرمایا جو انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عطا ہوا تھا اور ساتھ ہی اپنی نگاہِ فقر سے ظاہری و باطنی علومِ اسرارِ الٰہیہ عطا کر کے خلافتِ کبریٰ سے نوازااور ذکرِ کلمہ طیبہ بطریق نفی اثبات جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل ہوا تھا، وہ آپ کو سکھایا اور آپ کے ذریعہ سے وہ طریقہ تمام دنیا میں رائج ہوا۔ امام مزی رضی اللہ عنہ تہذیب الکمال میں لکھتے ہیں یونس بن عبید اللہ نے کہا کہ میں نے حسن بصری رضی اللہ عنہ سے پوچھا ابو سعید آپ روایت بیان کرتے ہوئے یہ کیوں فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حالانکہ یقیناً آپ نے ان کا عہد نہیں پایا تو انہوں نے جواب دیا اے بھتیجے تم نے مجھ سے وہ بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے مجھ سے کسی اور نے نہیں پوچھی۔ اگر میرے نزدیک تمہاری خاص حیثیت نہ ہوتی تو میں تمہیں بیان نہ کرتا۔ میں جس زمانے میں ہوں وہ تمہارے سامنے ہے (وہ حجاج بن یوسف کا دور تھا)۔ ہر وہ روایت جس میں تم نے مجھ سے سنا کہ میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ دراصل حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، مگر یہ کہ میں ایسے زمانے میں ہوں جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ مجبوراً نہیں کر سکتا۔ سلسلہ قادریہ اور سلسلہ چشتیہ آپ کے وسیلہ سے جناب علی کرم اللہ وجہ سے جاملتا ہے۔تصوف میں آپ ایک خاص مقام حاصل ہے۔ سنت نبوی کے سخت پابند تھے۔
علمی مقام
حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ تفسیر و حدیث میں امام تسلیم کیے جاتے ہیں۔ علمِ ظاہر و باطن کے علاوہ آپ زہد و ریاضت میں بھی کامل تھے۔ سات سات روز بعد روزہ افطار فرماتے اور شب و روز یادِ الٰہی میں مصروف رہتے۔ منقول ہے کہ ستر برس تک سوائے عذرِ شرعی کے آپ کا وضو نہ ٹوٹا اور آپ کبھی بے وضو نہ رہے۔ یہاں تک کہ مرتبۂ کمال تک پہنچے۔ آپ خشیتِ الٰہی کے سبب اس قدر گریہ کرتے کہ آپ کی آنکھیں کبھی خشک نہ دیکھی گئیں، یہاں تک کہ روتے روتے آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ حضرت امام حسن بصری کا معمول تھا کہ ہفتہ میں ایک بار وعظ فرمانے کے علاوہ زیادہ وقت تنہائی اور گوشہ نشینی میں گزارتے۔ آپ ہ کا وعظ اکثر دل کے خطروں اور اعمال کی خرابیوں اور نفس کے وسوسوں و خواہشات سے متعلق ہوا کرتا تھا۔ آپ کے وعظ میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوتی جن میں اپنے وقت کے تمام علماء و اولیاء شامل ہوتے۔ حضرت رابعہ بصری بھی آپ کے مواعظ سے اکتسابِ فیض کرتیں۔ جب آپ کا ذکر حضرت امام باقر کے سامنے ہوتا تو وہ فرماتے حسن کا کلام انبیاء علیہم السلام کے کلام کے مشابہ ہے۔ حضرت بلال بن ابی بردہ فرمایا کرتے تھے میں نے حسن بصری رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی کو صحابہ کرام سے مشابہ نہیں پایا۔ ایک شخص نے کسی بزرگ سے سوال کیا کہ حسن بصری کو ہم لوگوں پر کس وجہ سے بزرگی اور سرداری ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ تمام مخلوق اس کے علم کی حاجت مند ہے اور اس کو سوائے خالق کے کسی کی حاجت نہیں۔ دین میں سب اس کے محتاج ہیں، اس سبب سے وہ سب کا سردار ہے۔
وصال
آپ رضی اللہ عنہ کا وصال 4- محرم الحرام ( 8-اپریل 729ء) بروز جمعتہ المبارک کو 111ھ ہوا۔ آپ کا مزار پُر انوار بصرہ (عراق) سے نو میل مغرب کی طرف مقام زبیر پر واقع ہے۔
دم _ مرگ آپ مسکراتے هوئے فرما رہے تهے کونسا گناه ؟ کونسا گناه ؟ یہی کہتے کہتے آپکی روح پرواز کر گئی .
کسی بزرگ نے خواب میں دیکھ کر پوچھا آپ عالم نزع میں مسکرا رہے تهے اور بار بار کونسا گناه کونسا گناه کیوں کہه رہے تهے ؟
فرمایا مجھے ایک آواز سنائی دے رهی تهی که اے ملک الموت ! سختی سے کام لے کیونکہ ایک گناه باقی ره گیا ہے . اسلئے میں خوش ہو کر پوچھ رها تها که کونسا گناه ؟
آپکی وفات کی شب کسی بزرگ نے خواب دیکها که آسمان کے دروازے کهلے ہوئے ہیں. اور ندا کی جا رہی ہے که حسن بصری اپنے مولا کے پاس حاضر ہوگئے ہیں اور الله ان سے راضی ہے ۔
آپ کے ارشاداتِ عالیہ
انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نافع علم ، اکمل علم ، اخلاص و قناعت اور صبر جمیل حاصل کرتا رہے۔ اور جب یہ چیزیں حاصل ہوجائیں تو اس کے اُخروی مراتب کا اندازہ نہیں کیاجاسکتا۔
بھیڑ بکریاں انسانوں سے زیادہ باخبر ہوتی ہیں کیوں کہ چرواہے کی ایک آواز پر چرنا چھوڑدیتی ہیں اور انسان اپنی خواہشات کی خاطر احکامِ الٰہی کی بھی پروا نہیں کرتا ۔
بُروں کی صحبت سے بچو ، کیوں کہ صحبت بد نیک لوگوں سے دور کردیتی ہے ۔
اگر کوئی مجھے شراب نوشی کے لیے طلب کرے تو میں طلبِ دنیا سے وہاں جانے کو بہتر تصور کرتا ہوں ۔( یعنی دنیا کی طلب شراب نوشی سے بھی بری ہے۔)
فکر ایک ایسا آئینہ ہے جس میں نیک و بد کا مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے۔
جو قول کسی کی اصلاح نہ کرے اس میں شر پنہاں ہوتا ہے اور جوخموشی خالی از فکر ہو اس کو لہو و لعب اور غفلت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
قانع شخص مخلوق سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور جس نے گوشہ نشینی اختیار کرلی سلامت رہا۔ اور جس نے نفسانی خواہشات کو ترک کردیا وہ آزاد ہوگیا ۔جس نے حسد سے
اجتناب کیا اس نے محبت حاصل کرلی ۔
سلطان کی صحبت سے پرہیز کرو، کسی عورت کے ساتھ تنہا نہ رہو، راگ رنگ میں کبھی شرکت نہ کرو کیوں کہ یہ چیزیں برائی کی طرف لے جانے کا پیش خیمہ ہیں۔
تقوے کے تین مدارج ہیں اول : غیض و غضب کے عالم میں سچی بات کہنا، دوم : ان اشیا سے احتراز کرنا جن سے اللہ تعالیٰ نے اجتناب کا حکم دیا ہے ، سوم : احکامِ الٰہی پر راضی برضا ہونا۔
تین افراد کی غیبت درست ہے ۔ اول : لالچی کی ، دوم : فاسق کی ، سوم : ظالم بادشاہ کی ۔
غیبت انتہائی بُرا فعل ہے ، اگر چہ اس کا کفارہ صرف استغفار ہی ہے لیکن جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی بھی طلب کرنا ضروری ہے۔
انسان کو ایسے مکان میں بھیجا گیا ہے جہاں کے تمام حلال و حرام کا محاسبہ کیاجائے گا۔
ہر فرد دنیا سے تین تمنائیں لیے ہوئے چلاجاتا ہے ۔اول: جمع کرنے کی حرص، دوم : جو کچھ حاصل کرنا چاہا وہ نہ ہوسکا، سوم : توشۂ آخرت جمع نہ کرسکا۔
جو دنیا کو محبوب تصور نہیں کرتے نجات انھیں کا حصہ ہے ۔ اور اسیرِ دنیا خود کو ہلاکت میں ڈال لیتا ہے ۔
جو دنیا کی نعمتوں پر نازاں نہیں ہوتے مغفرت انھیں کاحصہ ہے۔ کیوں کہ دانش مند وہی ہے جو دنیا کو خیرباد کہہ کرآخرت کی فکر میں لگارہے ۔
نفس سے زیادہ دنیا میں کوئی شَے سرکش نہیں ۔اور اگر تم دیکھنا چاہتے ہوکہ تمہارےبعد دنیاکی کیا کیفیت ہوگی تو یہ دیکھ لو کہ دوسرے لوگوں کے جانے کے بعد کیا نوعیت رہی۔
تم سے پہلے آسمانی کتابوں کی ایسی وقعت تھی کہ لوگ اپنی راتیں ان کے معانی پر غور وفکر کرنے میں گذار دیتے تھےاور دن میں اس پر عمل پیرا ہوجاتے تھے۔ لیکن تم نے اپنی کتاب پر زیر زبر تو لگالیے مگر عمل ترک کرکے دنیا کی آسایش میں گرفتار ہوگئے۔
جو شخص سیم و زر سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رسوائی عطا کرتا ہے۔
جس کے پیروکار بے وقوف لوگ ہوں اس کی قلبی حالت درست نہیں ۔
جس چیز کی تم دوسروں کو نصیحت کرتے ہو پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوجاؤ،جب ہی سچے کہلاؤ گے۔
جو شخص تم سے دوسروں کے عیوب بیان کرتا ہے وہ یقیناً دوسروں سے تمہاری بُرائی بھی کرتا ہوگا۔
دینی بھائیوں کو اپنے اہل و عیال سے بھی زیادہ عزیز رکھو کیوں کہ وہ دینی معاملات میں تمہارے معاون ہوتے ہیں۔
دوستوں اورمہمانوںپر اخراجات کاحساب اللہ تعالیٰ نہیں لیتا لیکن جو اپنے ماں باپ پر خرچ کیاجائے اس کاحساب ہوگا۔
جس نماز میں دل جمعی نہ ہو وہ وجہِ عذاب بن جاتی ہے ۔
کسی شخص نے آپ سے خشوع کا مفہوم پوچھا تو فرمایا: انسان کے قلبی خوف کا نام خشوع ہے ۔