ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام! ایک ایسے نوجوان کے قریب سے گزرے جو باغ میں پانی لگا رہا تھا۔اُس نے آپ علیہ السلام سے کہا کہ بارگاہِ الٰہی میں دعا فرمائیے کہ اللّہ ربّ العزت اپنے عشق کا ایک ذرّہ مجھے عنائیت فرما دے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک ذرّہ تو بہت ہے تم اس کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔اُس نے کہا کہ،صرف نصف ذرّہ ہی عطا فرما دے۔اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پروردِ گارِ عالم سے دعا مانگی:
یا اللّہ! " اسے اپنے عشق کا نصف ذرّہ مرحمت فرما دے۔
یہ دعا مانگنے کے بعد آپ وہاں سے تشریف لے گئے۔کچھ عرصہ بعد پھر اسی راستہ سے آپ علیہ السلام کا گزر ہُوا اور اُس جوان کے بارے میں دریافت کِیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ تو دیوانہ ہو گیا ہے اور پہاڑوں پر چلا گیا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پروردِ گارِ عالم سے دعا مانگی: یا اللّہ! " اُس جوان سے میرا سامنا کر دے۔ " پھر آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ جوان پہاڑ کی ایک چوٹی پر کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھے جا رہا ہے۔آپ علیہ السلام نے اُسے سلام کِیا لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔آپ علیہ السلام نے اُس سے فرمایا کہ تم مجھے نہیں جانتے میں عیسیٰ ( علیہ السلام ) ہوں۔اللّہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی کہ
" اے عیسیٰ ( علیہ السلام ) ! جس کے دل میں میری محبت کا نصف ذرّہ بھی موجود ہو وہ کس طرح انسانوں کی بات سن سکتا ہے۔مجھے قسم ہے اپنی عزت و جلال کی،اگر اسے آرے سے چیر کر دو ٹکڑے بھی کر دیا جائے تو اسے احساس تک نہ ہو گا-
(مکاشفتہ القلوب باب 10 صفحہ 84)
سبحان اللہ
جب اتنی سی سطح پر انسان کا یہ حال ہے۔تو میرے پیارے نبی محمد صل اللہ علیہ وسلم جو معراج کا نوری سفر کرکے اپنے رب کے سامنے رو برو اپنے رب سے باتیں کرتے رہے۔اور موسی علیہ السلام اپنے رب کی ایک تجلی نہ سہہ سکے-کیا مقام ہے ذات
محمدی کا اپنے رب کی تجلیوں کو باقاعدہ سہتے ہوئے واپس تشریف بھی لائے اور پورے ہوش و ہواش میں ایک نارمل زندگی گزارتے ہوئے اپنے نبوت کے منصب کو پورا کرتے ہوئے اپنے ربَ حقیقی سے جا ملے۔بیشک اللہ نے نامِ محمد کو اللہ نے بہت بڑامقام عطا کیا ہے۔