Wah wah alla poetry
حفیظؔ جالندھری
مُدتوں تک جو پڑھایا کِیا اُستاد مجھے
عِشق میں بُھول گیا، کُچھ نہ رہا یاد مجھے
کیا میں دِیوانہ ہُوں یا رب ! کہ سَرِ راہ گُزار !
دُور سے گُھورنے لگتے ہیں، پری زاد مجھے
اب ہے آواز کی وہ شان، نہ بازُو کی اُڑان
اور صیّاد کئے دیتا ہے آزاد مجھے
داد خواہی کے لئے، اور تو ساماں نہ مِلا
نالہ و آہ پر رکھنی پڑی بُنیاد مجھے
میرے شعروں پہ وہ شرمائے تو احباب ہنسے
اے حفیؔظ ! آج غزل کی یہ مِلی داد مجھے
Wah wah alla poetry
ab main poetry kam hee parhti hun pata nahi kyun dukh dukh sa hone lagta hai