ہاتھ مل کے گزریں تو
خواب جلتی آنکھوں میں کروٹیں بدلتے ہیں
بے خودی کے رستوں پرراہرو بھٹکتے ہیں
جب مسافرت کی شب آخری دسمبر میں
تم سے ملنے آئے تھے
تو سفر کی گلیوں میں
جگنوؤں کے آدھے دھڑ
روشنی لٹاتے تھے
اور کاہی آنکھوں میں
دیپ جھلملاتے تھے
برف جیسے ہاتھوں کو دھوپ تھامتی تھی تو
دن پگھلنے لگتے تھے
رات جلنے لگتی تھی
اب تمہیں بتائیں کیا
کس طرح کہیں تم سے
آنسوؤں کے موسم میں
بے حساب ہنسنے کا
مول تو چکانا تھا
اس طرح چکایا ہے
شوخ رنگ آنکھوں میں
اب دیئے نہیں جلتے
راستے بلاتے ہیں
پر قدم نہیں اٹھتے
شہرِ دل فگاراں کے
زرد پوش موسم کی
یاد کم نہیں ہوتی
موسمی محبت کی
چاشنی وہی ہے پر
اب کسی دسمبر کی
آنکھ نم نہیں ہوتی...