چھو لیں گر کچھ منظرِ بے کل ہمارے نام کے
پھیل جائیں آپ میں جنگل ہمارے نام کے

ہم نے بھی اک عمر کاٹی ہے کسی کے نام پر
وہ بھی رکھ لیتا کہیں کچھ پل ہمارے نام کے

خوشبوؤں سے بھر گیا شہرِ خیال ِآرزو
پھول جو بھیجے کسی نے کل ہمارے نام کے

بس وضاحت ہی تو مانگی آپکے الزام کی
آگئے ماتھے پہ فورا بل ہمارے نام کے

آج بھی ہو جائیں تو دیوارو در تک کھل پڑیں
دیکھ رکھے ہیں نا وہ جل تھل ہمارے نام کے

خوش خرامی آپ نے رکھ لی کسی کے واسطے
اور فقط بھیجے ہیں پائے شل ہمارے نام کے

سرمگیں آنکھوں کاکوئی آگیاہے شہر میں
صائمہ کرتا ہے سارے چھل ہمارے نام کے
صائمہ اسحاق