So true and very sad state of some peoples mindsets. ab kya ker sakty hain?
میں نے لندن کے اخباروں میں پڑھا کہ برطانیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک غریب اور بےروزگار آدمی کا بچہ لا پتہ ہوگیا۔ دو دن تک اُس قصبے کے تمام چھوٹے بڑے سارا کام کاج چھوڑ کر صبح سے شام تک بچے کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ مقامی پولیس کے علاوہ دوسرے ضلعوں کی پولیس بھی، سینکڑوں کی تعداد میں، تفتیش وتلاش میں شریک ہوگئی۔ دو دن تک ایک سرکاری ہیلی کاپٹر سارے علاقے کے اوپر چکر لگاتا رہا۔ تین دن تک قومی اخباروں میں اور ریڈیو اور ٹی وی پر ایک غریب آدمی کے بچے کی گمشدگی کو پرائم ٹائم میں مفصل کوریج دی گئی۔ اسی طرح پچھلے دنوں انتہائی نگہداشت کے وارڈمیں نرسوں کی کمی کے باعث ایک عام شہری کی تین چار ماہ کی بچی کے دل کا آپریشن کئی ہفتوں تک ملتوی ہوتا رہا۔ اس پر اخبارات اور بی بی سی نے جو حکومت کا اپنا ادارہ ہے، وہائٹ ہال کو پرئم منسٹر مسز تھیچر سمیت سر پر اٹھا لیا۔ عدالت میں مقدمہ دائر ہوا۔ پارلیمنٹ میں بحث ہوئی۔ پبلک دباؤ اتنا بڑھا کہ دو دن بعد بچی کا آپریشن کرنا پڑا۔ مزکورہ بالا دونوں سانحوں میں پوری قوم ایک غریب آدمی کے دکھ درد میں شریک اور مضطرب رہی۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ انگلش بولتا ہے یا اسکاٹش یا دیلش۔ رومن کیتھلک ہے یا پروٹسٹنٹ۔ لیبر پارٹی سے تعلق ہے یا کنزرویٹوز کا حامی ہے۔ کہیں آئرش تو نہیں؟ ایک لمحے کے لیے بھی اس کی سماجی یا معاشی حیثیت اس کے بنیادی استحقاق میں حارج نہیں ہوئی۔ اب ایک ہی لمحے کے لیے اس کا موازنہ وطنِ عزیز کے حالات سے کیجئے۔ یہاں ہم روزانہ لسانی، گروہی اور صوبائی چپقلش اور تصادم کی خبریں، حادثات اور قابلِ علاج بیماریوں میں انسانی جانوں کے اتلاف کی رپورٹیں پڑھتے ہیں۔ پڑھتے ہیں اور اسے مقدرات کا حصہ اور روزمرہ کا معمول سمجھ کر اکبار اور اپنے زہن کا ورق پلٹ کر اسپورٹس اور اسٹاک مارکیٹ کی خبریں پڑھنے لگتے ہیں۔ ہم بہت مصروف ہیں۔ ہمارے پاس اداس رہنے اور سوگ منانے کے لیے کوئی وقت نہیں ہے۔
"تیرا لُٹ گیا شہر بھنبور سسیے بے خبرے"
ایک زندہ، ذمہ دار اور مہذب معاشرے کی یہ پہچان ہے کہ اگر وہ کسی کے دکھ درد کا مداوا نہیں کر سکتا تو اس میں شریک ہوجاتا ہے۔
(شامِ شعرِ یاراں ـــــ مشتاق احمد یوسفی)
(-: Bol Kay Lab Aazaad Hai'n Teray :-)
So true and very sad state of some peoples mindsets. ab kya ker sakty hain?