ہموار کھینچ کر، کبھی دُشوار کھینچ کر
تنگ آچکا ھوں سانس لگاتار کھینچ کـر
میدان میں گر نہ آتا میں تلوار کھینچ کر
لے جاتے لوگ مصر کے بازار کھینچ کر
خاطر میں کچھ نہ لائے گا یہ سائلِ عشق ہے
کیوں روکتے ھو ریت کی دیوار کھینچ کر
اُکتا چُکا یہ دل بھی، نظر بھی، میں آپ بھی
مُدّت سے تیری حســرتِ دیدار کھینچ کـــــر
ہرگز یہ ایسے ماننے والی نہیں میاںؔ
دُنیا کو دو لگا سرِ بــازار کھینچ کـــر
جــاتا رہا وہ کیف نہـــاں جو چُبھن میں تھا
پچھتا رہا ھوں پاؤں کے اب خار کھینچ کر
کیف بھوپالی