میں شام یادوں کے جنگلوں میں گذارتا ہوں‘ کہ کچھ لکھوں گا
یہ شہر سارا ہی سو چکا ہے میں جاگتا ہوں کہ کچھ لکھوں گا
بہار رُت کے وہ خواب سارے جو میری پلکوں پہ آ سجے تھے!
وہ خواب آنکھوں میں جل چکے ہیں میں جل رہا ہوں کہ کچھ لکھوں گا
میں پچھلے موسم کی بارشوں کو پھر اپنی آنکھوں میں لا رہا ہوں!
کہ اب کے ساون کی رُت میں‘ میں بھی یہ سوچتا ہوں کہ کچھ لکھوں گا