کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی Ø+سرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان Ú©ÛŒ صØ+بت میں کٹا کرتی تھیں ØŒ اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بےچین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے
بڑی Ø+سرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفØ+ہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گرپڑے ہیں
بنا پتوں کےسوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاØ+یں ہیں Û”Û”Û”Û”
جو مٹی Ú©Û’ سکوروں Ú©ÛŒ طرØ+ بکھری Ù¾Ú‘ÛŒ ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کرڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفØ+Û’ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں Ú©Ùˆ اپنے رØ+Ù„ Ú©ÛŒ صورت بناکر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے

(شاعر: گلزار)