کچھ ایسے پھول ناگہاں، ہوا اُڑا کے لے گئی
لگا کہ سارا گلستاں..... ہوا اُڑا کے لے گئی
مسافروں کے حوصلے.... بلند تھے بہت مگر
تمام میل کے نشاں ....ہوا اُڑا کے لے گئی
کھڑی ہوئی تھی پرسکون ساحلوں پہ کشتیاں
اُنہیں بھنورکے درمیاں ہوا اُڑا کے لے گئی
وہ پتّہ اپنی شاخ سے..... ذرا جدا ہوا ہی تھا
نہ جانے پھر کہاں کہاں، ہوا اُڑا کے لے گئی
خدا اک مکان جب...... شہید کر دیا گیا
نہ پوچھو کتنی بستیاں.... ہوا اُڑا کے لے گئی
یہ مانا نصرتؔ اس گلی میں آپ خود گئے نہیں
تو کیا نصیبِ دشمناں... ہوا اُڑا کے لے گئی