جب ۔۔۔ سچ , وقت کے دبیز پردوں کی اوٹ میں پناہ لے لیتا ہے۔اور۔۔۔سارے راز , گذرتے زمانے کی برفیلی چٹان کی تہہ تلے, مد فون ہو جاتے ہیں ، اور سراغ رساں تلاش میں ناکام ہوکر اپنا نام و نشان تک گنوا بیٹھتے ہیں ۔جب ۔۔۔ گھڑی کی سوئیاں تو آگے کو بڑھتی ہیں ،مگر وقت ساکت ہو جاتا ہے۔جب ۔۔۔ بیتی ہوئی زندگی، کی راکھ بھی سرد پڑجاتی ہے مگر کُریدنے پر کوئی سُلگتی چنگاری زندگی کی رمق کا پتہ ضرور دیتی ہے۔جب ۔۔۔ جذ بات اور احساسات پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے جو لاکھ جنجھوڑنے پر بھی نہیں ٹوٹتا ۔تب ایسے میں ۔۔۔جنم ہوتا ہے ایک نئی اُمید، ایک نئے انتظار کاانتظار ۔۔۔ سچ کے طشت از بام ہونے کا،انتظار ۔۔۔ برف کے پگھلنے کے تیجے میں سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھنے کاانتظار ۔۔۔ سُلگتی چنگاری کے پھر سے آگ بننے کااُنتظار ۔۔۔ سکتے کے ٹوٹنے کا ، اور جذبات و احساسات کے پھر سے جی اُٹھنے کا،
مگریاد رہے ۔۔۔ یہ انتظار دنوں، مہینوں اور سالوں پر نہیں ۔۔۔ صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔