ابھی تو اور بھی دن بارشوں کے آنے تھے
کرشمے سارے اسے آج ہی دکھانے تھے
حقارتیں ہی ملیں ہم کو زنگ آلودہ
دلوں میں یوں تو کئی قسم کے خزانے تھے
یہ دشت تیل کا پیاسا نہ تھا خدا وندا
یہاں تو چار چھ دریا ہمیں بہانے تھے
کسی سے کوئی تعلق رہا نہ ہو جیسے
کچھ اس طرح سے گزرتے ہوئے زمانے تھے
پرندے دور فضاؤں میں کھو گئے علویؔ
اجاڑ اجاڑ درختوں پہ آشیانے تھے