مسعود مرحوم

یہ مہر و مہ، یہ ستارے یہ آسمان کبود
کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجود
خیال جادہ و منزل فسانہ و افسوں
کہ زندگی ہے سراپا رحیل بے مقصود
رہی نہ آہ ، زمانے کے ہاتھ سے باقی
وہ یادگار کمالات احمد و محمود
زوال علم و ہنر مرگ ناگہاں اس کی
وہ کارواں کا متاع گراں بہا مسعود!
مجھے رلاتی ہے اہل جہاں کی بیدردی
فغان مرغ سحر خواں کو جانتے ہیں سرود
نہ کہہ کہ صبر میں پنہاں ہے چارۂ غم دوست
نہ کہہ کہ صبر معمائے موت کی ہے کشود
دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است
ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است