پرسیپشن سے نہیں پیار سے کام لیں

محمد یاسین

کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ آپ نے کسی شخص کو دیکھا ہو اور وہ آپ کو پسند آگیا ہو یا یوں کہہ لیں پہلی نظر کا پیار ہوگیا ہو یا پھر یہ کہ پہلی نظر میں ہی اس سے سخت نفرت ہوگئی ہو یا انتہائی ناپسندیدہ لگا ہو؟ کسی کی بھی ظاہری حالت دیکھتے ہی آپ نے اندازہ لگا لیا ہو کہ یہ بندا صحیح نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے ہر سجی سنوری عورت دلہن نہیں ہوتی ویسے ہی ہر میلا کچیلا نظر آنے والا شخص بھکاری نہیں ہوتا۔ ضروری نہیں کہ بڑی سی گاڑی میں بیٹھا شخص اس کا مالک ہی ہو۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی سے صرف ایک ہی ملاقات کرتے ہیں اور پھر اس انسان کے بارے میں اپنی رائے قائم کرلیتے ہیں کہ وہ ایسا ہوگا یا ویسا ہوگا۔ اس شخص کو صحیح سے جاننے کی زحمت ہی نہیں کرتے بس اپنے دماغ میں رائے نام کا ایک جن بنا لیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس ملاقات میں گفتگو کا موضوع ایسا ہو جس سے متعلق اس کی رائے انتہائی منفی ہو یا اتنی مثبت ہو کہ ہم سوچیں یار یہ کیا بندہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملاقات اتنی چھوٹی ہو کہ کئی باتیں ادھوری رہ جائیں یا ہم کہہ ہی نہ سکے ہوں یا پھر وہ کر نہ سکا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ انتہائی گرمی میں کہیں دور سے آیا ہو اور اس کا پارہ ہائی ہوا ہو یا سردی سے ٹھٹھر رہا ہو اور وہ بات کرنے یا اچھی گفتگو کرنے کے قابل ہی نہ ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی شخصیت کے حصار میں ہو، آپ اگر بلا کے حسین ہیں یا کم از کم اس کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت ہیں تو وہ پریشان ہوجائے۔
ملاقات سے بھی پہلے کئی بار ہم لوگوں کی شکل و صورت دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگلا بندا کیسے ہوگا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کی تصویر دیکھ لیتے ہیں اور پھر اس سے ملاقات سے پہلے ہی اس کے بارے میں اندازے لگانے شروع کردیتے ہیں۔ آپ کا پتہ نہیں ہے لیکن میں شاید ایسا کئی بار کرچکا ہوں اور میں نے اپنے ارد گرد لوگوں سے کئی بار سنا ہے یہ تو شکل سے ہی لیچڑ لگ رہاہے، غنڈا دکھائی دے رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ دراصل ایسا کرتے ہوئے ہمیں اپنے دماغ اور ماضی کے تجربات پر اتنا یقین ہوتا ہے کہ ہم اعتبار کرلیتے ہیں کہ ہم جو سوچ اور سمجھ رہے ہیں وہی صحیح ہوگا۔ اپنے اور دوسروں کے تجربات، ظاہری حالت، تھوڑا بہت علم اور ایسی ہی کئی سوچوں اور خیالوں کے بل پر ہم مختلف لوگوں کے متعلق اپنے ذہن میں ایک گرہ باندھ لیتےہیں۔ کچھ لوگ اسے ججمنٹ کہتے ہیں اور کچھ چھٹی حس قرار دیتے ہیں۔
تصور کریں اگر کوئی آپ کو بتا دے کہ فلاں شخص پاگل خانے میں رہ چکا ہے اور آپ پھر اس سے شخص سے ملیں تو آپ اس کی حرکتوں کو ایک پاگل کے طور پر لیں گے۔ مجھے کسی نےکہا تھا کہ پاگل بہت سخت لفظ ہوتا ہے اگر لفظ اتنا سخت ہے تو پاگل کیسا ہوتا ہوگا؟ چلیں یوں کہہ لیں اگر کوئی آپ کو بتا دے کہ فلاں شخص ڈاکٹر ہے تو آپ اس کے اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے انداز کو بطور ڈاکٹر ہی تصور کریں گے، کہیں بھی ذرا سی اونچ نیچ ہوگی تو آپ اسے فورا ڈاکٹر سے عطائی بنا دیں گے۔
ہمیں سکھایا جاتا ہے اور شاید یہ کسی بڑی ہستی کا قول بھی ہے کہ سامنے والا شخص جیسے ہی بات کرنے کیلئے منہ کھولتا ہے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ بندہ ہے کیا اور چاہتا کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کئی بار ہمیں اپنے دماغ کی سننی چاہئے اور دنیا نے ہمیں جو بھی سبق سکھائے ہیں انہیں استعمال کرنا چاہئے ۔ اپنے تمام تر تجربات اور لوگوں کی مثالوں کو سامنے رکھنا چاہئے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہم کسی بھی شخص کیلئے اپنے ذہن میں منفی تصویر بنالیں کہ فلاں شخص تو ہے ہی برا۔ کیا پتہ اس کی سوچ آپ کیلئے اتنی اچھی ہو ، کیا معلوم وہ آپ کیلئے کتنا سود مند ہو یا آپ کو فائدہ پہنچانا چاہ رہا ہو،یا صرف یہ کہ وہ آپ سے جڑنا چاہ رہا ہو۔ کیوں کہ آخر اس بھر ی دنیا میں بندا ہی بندے کا دارو ہے۔
ہمیں کسی انسان کو اتنا وقت ضرور دینا چاہئے کہ وہ صحیح ڈھنگ سے ہمارے سامنے آئے۔ ہمیں سامنے والے انسان کو اس کے اپنے پورے رنگ و روپ کے ساتھ سامنے آنے دینا چاہئے، آخر پتہ تو لگے وہ ہے کیا۔ سوچیں ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے جب مسلمانوں کے چہرے پر صرف داڑھی کو دیکھتے ہی لوگ دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ ٹائٹ جینز اور رنگ برنگی شرٹ پہنے شخص کو مراثی سمجھتے ہیں۔ حد سے زیادہ چست اور کھلے گلے والی قمیض پہنی عورت کو فاحشہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ایسی ہی اور کتنی ہی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن قصہ مختصر یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو پورا وقت دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔
مدرٹریسا کہتی ہیں۔
اگر آپ لوگوں کو جج کرنا شروع کردیں گے تو آپ کو ان سے محبت کرنے کا وقت ہی نہیں ملےگا۔
If you start judging people you will be having no time to love them
ہوسکتا ہے آپ نے لوگوں کو جاننے کے چکر میں پہلے ہی بہت دھوکے کھائے ہوں۔ آپ کے ماضی کے تجر بات اچھے نہ ہوں لیکن اس سب میں سامنے والے شخص کا کیا قصور ہے؟ ہوسکتا ہے اس بار آپ کو کوئی اچھا تجربہ ملے یا ایک بہترین انسان مل جائے جو آپ کو اور بھی بہت کچھ نیا سکھا سکتا ہے۔ لہذا لوگوں کو جج کرنے کے بجائے ان سے پیار کریں، انہیں تھوڑا وقت دیں کیا پتہ آپ جوہری نہ ہوں لیکن سامنے والا شخص ہیرا ہو۔