معروف آزاد
چار مارچ 1769ء کو پیدا ہونے والا محمد علی پاشا سلطنت عثمانیہ کا البانوی کمانڈر تھا۔ حالات نے ایسی کروٹ لی کہ اس نے مصر اور سوڈان کے خدیو ہونے کا دعویٰ کیا۔ خدیو کا رتبہ کسی وائسرائے جیسا ہوا کرتا تھا۔ عثمانیوں نے اس دعوے کو عارضی طور پر تسلیم کر لیا۔ اسے جدید مصر کا بانی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے ڈرامائی عسکری، معاشی اور ثقافتی اصلاحات کیں۔ محمد علی کوالا میں پیدا ہوا جو ان دنوں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ آج یہ قصبہ یونان میں شامل ہے۔ اس کا خاندان البانوی تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اس کے چچا نے اسے کوالا میں ٹیکس جمع کرنے کا کام سونپا جسے اس نے بڑی محنت سے سرانجام دیا اور وہ فوج میں ایک اہم عہدے کا حق دار ٹھہرا۔ انہی دنوں فرانسیسیوں کے انخلا سے مصر میں طاقت کا ایک خلا پیدا ہو گیا تھا۔ مملوکوں کی طاقت کم ہو چکی تھی، لیکن ختم نہیں ہوئی تھی۔ ان کا ٹکراؤ عثمانی فوجوں سے ہوتا رہتا۔ اس دوران محمد علی نے اپنی وفادار البانوی فوج کے ساتھ فریقین میں سے کبھی ایک کا اور کبھی دوسرے کا ساتھ دیا۔مملوکوں اور عثمانیوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی سے بالآخر مقامی آبادی تنگ آ گئی۔ محمد علی نے مقامی آبادی کی حمایت بڑی مہارت سے حاصل کر لی تھی۔ 1805ء میں علما کی سربراہی میں ایک ممتاز گروہ نے ’’والی‘‘احمد خورشید پاشا کی جگہ محمد علی کو عہدہ دینے کا مطالبہ کیا۔ عثمانی سلطان سلیم سوم کے لیے عوام میں مقبول محمد علی کی مخالفت ممکن نہ رہی۔ طاقت اور اختیار میں اضافے کے باوجود مملوکوں سے اسے خطرہ برقرار رہا۔ اس نے مملوک رہنماؤں کو ایک تقریب کے بہانے قلعہ صلاح الدین مدعو کیا۔ یہ تقریب یکم مارچ 1811ء کو ہوئی۔ جب مملوک رہنما اکھٹے ہوئے تو انہیں محمد علی کی فوج نے گھیر لیا اور قتل کر دیا۔ محمد علی نے مصر کو ایک علاقائی طاقت بنا دیا۔ وہ اسے سلطنت عثمانیہ کا متبادل بنانا چاہتا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ٭…٭…٭