پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب
اے وادی لولاب
گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دیں بندۂ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
اے وادی لولاب
ہیں ساز پہ موقوف نوا ہائے جگر سوز
ڈھیلے ہوں اگر تار تو بے کار ہے مضراب
اے وادی لولاب
ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مے ناب
اے وادی لولاب
بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
اے وادی لولاب