اب کے بارش کو بھی تو آنے دے
کچھ ستم موسموں کو ڈھانے دے

میرے گزرے ہوئے زمانے دے
پھر مجھے زخم کچھ پرانے دے

ہر کوئی مجھ کو آزماتا ہے
اب مجھے اس کو آزمانے دے

رات تو گہری نیند سوتی ہے
ساز غم صبح کو سنانے دے

دل کو اس سے سکون ملتا ہے
درد کی محفلیں سجانے دے