موسم کا عذاب چل رہا ہے
بارش میں گلاب جل رہا ہے
پھر دیدہ و دل کی خیر یارب!
پھر ذہن میں خواب پل رہا ہے
صحرا کے سفر میں کب ہوں
تنہا ہمراہ سراب چل رہا ہے
آندھی میں دُعا کو بھی نہ اُٹھا
یوں دستِ گُلاب شل رہا ہے
کب شہرِ جمال میں ہمیشہ
وحشت کا عتاب چل رہا ہے
زخموں پہ چھڑک رہا ہے خوشبو
آنکھوں پہ گلاب مَل رہا ہے
ماتھے پہ ہَوانے ہاتھ رکھے
جسموں کو سحاب جھل رہا ہے
موجوں نے وہ دُکھ دیے بدن کو
اب لمسِ حباب کَھل رہا ہے
قرطاسِ بدن پہ سلوٹیں ہیں
ملبوسِ کتاب ،گل رہا ہے