تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
قسمت میں میری، صلہ نہیں ہے
بچھڑے تو حال نجانے کیا ہو
جو شخص ابھی ملا نہیں ہے
جینے کی تو آرزو ہی کب تھی
مرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے
جو زیست کو معتبر بنا دے
ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے
خوشبو کا حساب ہو چکا ہے
اور پھول ابھی کھلا نہیں ہے
سرشاری رہبری میں دیکھا
پیچھے میرا قافلہ نہیں ہے
اک ٹھیس پہ دل کا پھوٹ بہنا
چھونے میں تو آبلہ نہیں ہے !