اند مال
شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں
باد٠مسموم نے توڑ کر کتنے پتے سپرد٠خزاں کردئیے
بÛÛ Ú©Û’ مشکیزۂ ابر سے کتنی بوندیں زمیں Ú©ÛŒ غذا بن گئیں
غیر ممکن تھا ان کا شمار
تھک گئیں گننے والےÛر اک Ûاتھ Ú©ÛŒ انگلیاں
’ان گنت‘ Ú©ÛÛ Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ بڑھا وقت کا کارواں
ان گنت تھے مرے زخم دل
ٹوٹی کرنوں، بکھرتے Ûوئے زرد پتوں، برستی Ûوئی بوندیوں Ú©ÛŒ طرØ+
اور مرÛÙ… بھی ناپید تھا
لیکن اس روز دیکھا جو اک Ø·ÙÙ„ نوزاد کا خندۂ زیر لب
زخم٠دل مندل ÛÙˆ گئے سب Ú©Û’ سب