اند مال
شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں

بادِ مسموم نے توڑ کر کتنے پتے سپردِ خزاں کردئیے

بہہ کے مشکیزۂ ابر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں

غیر ممکن تھا ان کا شمار

تھک گئیں گننے والےہر اک ہاتھ کی انگلیاں

’ان گنت‘ کہہ کے آگے بڑھا وقت کا کارواں

ان گنت تھے مرے زخم دل

ٹوٹی کرنوں، بکھرتے ہوئے زرد پتوں، برستی ہوئی بوندیوں Ú©ÛŒ طرØ+

اور مرہم بھی ناپید تھا

لیکن اس روز دیکھا جو اک طفل نوزاد کا خندۂ زیر لب

زخمِ دل مندل ہو گئے سب کے سب