ایک منظر

افق کے دریچے سے کرنوں نے جھانکا
فضا تن گئی راستے مسکرائے

سمٹنے لگی نرم کہرے کی چادر!
جواں شاخساروں نے گھونگھٹ اٹھائے

پرندوں کی آواز سے کھیت چونکے
پراسرار لَے میں رہٹ گنگنائے

Ø+سیں شبنم آلود پگڈنڈیوں سے
لپٹنے لگے سبز پیڑوں کے سائے

وہ دور ایک ٹیلے پہ آنچل سا جھلکا
تصور میں لاکھوں دیئے جھلملائے

Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” Û”Û”Û”