میبل اور میں

میبل لڑکیوں Ú©Û’ کالج میں تھی، لیکن ہم دونوں کیمبرج یونیورسٹی میں ایک ہی مضمون پڑھتے تھے۔ اس لیے اکثر لیکچروں میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ اس Ú©Û’ علاوہ ہم دوست بھی تھے۔ کئی دلچسپیوں میں ایک دوسرے Ú©Û’ شریک ہوتے تھے۔ تصویروں اور موسیقی کا شوق اسے بھی تھا، میں بھی ہمہ دانی کا دعویدار اکثر گیلریوں یا کانسرٹوں میں اکھٹے جایا کرتے تھے۔ دونوں انگریزی ادب Ú©Û’ طالب علم تھے۔ کتابوں Ú©Û’ متعلق باہم بØ+Ø« Ùˆ مباØ+Ø«Û’ رہتے۔ ہم میں سے اگر کوئی نئی کتاب یا نیا "مصنف" دریافت کرتا تو دوسرے Ú©Ùˆ ضرور اس سے آگاہ کر دیتا۔ اور پھر دونوں مل کر اس پر اچھے برے کا Ø+Ú©Ù… صادر کرتے۔
لیکن اس تمام یک جہتی اور ہم آہنگی میں ایک خلش ضرور تھی۔ ہم دونوں Ù†Û’ بیسویں صدی میں پرورش پائی تھی۔ عورت اور مرد Ú©ÛŒ مساوات Ú©Û’ قائل تو ضرور تھے تاہم اپنے خیالات میں اور بعض اوقات اپنے روئے میں ہم کبھی نہ کبھی اس Ú©ÛŒ تکذیب ضرور کر دیتے تھے۔ بعض Ø+الات Ú©Û’ ماتØ+ت میبل ایسی رعایات Ú©Ùˆ اپنا Ø+Ù‚ سمجھتی جو صرف صنف ضعیف ہی Ú©Û’ ایک فرد Ú©Ùˆ ملنی چاہئیں اور بعض اوقات میں تØ+Ú©Ù… اور رہنمائی کا رویہ اختیار کر لیتا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ گویا ایک مرد ہونے Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے میرا فرض یہی ہے۔ خصوصاً مجھے یہ اØ+ساس بہت زیادہ تکلیف دیتا تھا کہ میبل کا مطالعہ مجھ سے بہت وسیع ہے۔ اس سے میرے مردانہ وقار Ú©Ùˆ صدمہ پہنچتا تھا۔ کبھی کبھی میرے جسم Ú©Û’ اندر میرے ایشیائی آباء Ùˆ اجداد کا خون جوش مارتا اور میرا دل جدید تہذیب سے باغی ہو کر مجھ سے کہتا کہ مرد اشرف المخلوقات ہے۔ اس طرØ+ میبل عورت مرد Ú©ÛŒ مساوات کا اظہار مبالغہ Ú©Û’ ساتھ کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا کہ وہ عورتوں Ú©Ùˆ کائنات Ú©ÛŒ رہبر اور مردوں Ú©Ùˆ Ø+شرات الارض سمجھتی ہے۔
لیکن اس بات کو میں کیونکر نظرانداز کرتا کہ میبل ایک دن دس بارہ کتابیں خریدتی، اور ہفتہ بھر کے بعد انہیں میرے کمرے میں پھینک کر چلی جاتی اور ساتھ ہی کہہ جاتی کہ میں انہیں پڑھ چکی ہوں۔ تم بھی پڑھ چکو گے تو ان کے متعلق باتیں کریں گے۔
اول تو میرے لیے ایک ہفتہ میں دس بارہ کتابیں ختم کرنا Ù…Ø+ال تھا، لیکن فرض کیجئے مردوں Ú©ÛŒ لاج رکھنے Ú©Û’ لیے راتوں Ú©ÛŒ نیند Ø+رام کر Ú©Û’ ان سب Ú©Ùˆ Ù¾Ú‘Ú¾ ڈالنا ممکن بھی ہوتا تو بھی ان میں دو یا تین کتابیں فلسفے یا تنقید Ú©ÛŒ ضروری ایسی ہوتیں کہ ان Ú©Ùˆ سمجھنے Ú©Û’ لیے مجھے کافی عرصہ درکار ہوتا۔ چنانچہ ہفتے بھر Ú©ÛŒ جانفشانی Ú©Û’ بعد ایک عورت Ú©Û’ سامنے اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا کہ میں اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ جب تک وہ میرے کمرے میں بیٹھی رہتی، میں Ú©Ú†Ú¾ کھسیانا سا ہو کر اس Ú©ÛŒ باتیں سنتا رہتا، اور وہ نہایت عالمانہ انداز میں بھویں اوپر Ú©Ùˆ چڑھا چڑھا کر باتیں کرتی۔ جب میں اس Ú©Û’ لیے دروازہ کھولتا یا اس Ú©Û’ سگریٹ Ú©Û’ لیے دیا سلائی جلاتا یا اپنی سب سے زیادہ آرام دہ کرسی اس Ú©Û’ لیے خالی کر دیتا تو وہ میری خدمات Ú©Ùˆ Ø+Ù‚ نسوانیت نہیں بلکہ Ø+Ù‚ استادی سمجھ کر قبول کرتی۔
میبل Ú©Û’ Ú†Ù„Û’ جانے Ú©Û’ بعد ندامت بتدریج غصے میں تبدیل ہو جاتی۔ جان یا مال ایثار سہل ہے، لیکن آن Ú©ÛŒ خاطر نیک سے نیک انسان بھی ایک نہ ایک دفعہ تو ضرور ناجائز ذرائع Ú©Û’ استعمال پر اتر آتا ہے۔ اسے میری اخلاقی پستی سمجھئے۔ لیکن یہی Ø+الت میری بھی ہو گئی۔ اگلی دفعہ جب میبل سے ملاقات ہوئی تو جو کتابیں میں Ù†Û’ نہیں Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ تھیں، ان پر بھی میں Ù†Û’ رائے زنی شروع کر دی۔ لیکن جو Ú©Ú†Ú¾ کہتا سنبھل سنبھل کر کہتا تھا تفصیلات Ú©Û’ متعلق کوئی بات منہ سے نہ نکالتا تھا، سرسری طور پر تنقید کرتا تھا اور بڑی ہوشیاری اور دانائی Ú©Û’ ساتھ اپنی رائے Ú©Ùˆ جدت کا رنگ دیتا تھا۔
کسی ناول کے متعلق میبل نے مجھ سے پوچھا تو جواب میں نہایت لا ابالیانہ کہا:
"ہاں اچھی ہے، لیکن ایسی بھی نہیں۔ مصنف سے دور جدید کا نقطہ نظر کچھ نبھ نہ سکا، لیکن پھر بھی بعض نکتے نرالے ہیں، بری نہیں، بری نہیں۔"
کنکھیوں سے میبل کی طرف دیکھتا گیا لیکن اسے میری ریاکاری بالکل معلوم نہ ہونے پائی۔ ڈرامے کے متعلق کہا کرتا تھا:
"ہاں پڑھا تو ہے لیکن ابھی تک میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ جو Ú©Ú†Ú¾ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ والے Ú©Ùˆ Ù…Ø+سوس ہوتا ہے وہ اسٹیج پر جا کر بھی باقی رہے گا یا نہیں؟ تمہارا کیا خیال ہے؟"
اور اس طرØ+ سے اپنی آن بھی قائم رہتی اور گفتگو کا بار بھی میبل Ú©Û’ کندھوں پر ڈال دیتا۔
تنقید کی کتابوں کے بارے میں فرماتا:
"اس نقاد پر اٹھارہویں صدی کے نقادوں کا کچھ کچھ اثر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یوں ہی نامعلوم سا کہیں کہیں۔ بالکل ہلکا سا اور شاعری کے متعلق اس کا رویہ دلچسپ ہے، بہت دلچسپ، بہت دلچسپ۔"
رفتہ رفتہ مجھے اس فن پر کمال Ø+اصل ہو گیا۔ جس روانی اور نفاست Ú©Û’ ساتھ میں ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کر سکتا تھا اور اس پر میں خود Ø+یران رہ جاتا تھا، اس سے جذبات Ú©Ùˆ ایک آسودگی نصیب ہوئی۔
اب میں میبل سے نہ دبتا تھا، اسے بھی میرے علم Ùˆ فضل کا متعارف ہونا پڑا۔ وہ اگر ہفتہ میں دس کتابیں پڑھتی تھی، تو میں صرف دو دن Ú©Û’ بعد ان سب کتابوں Ú©ÛŒ رائے زنی کر سکتا تھا۔ اب اس Ú©Û’ سامنے ندامت کا کوئی موقع نہ تھا۔ میری مردانہ روØ+ میں اس اØ+سان فتØ+ مندی سے بالیدگی سی Ø¢ گئی تھی۔ اب میں اس Ú©Û’ لیے کرسی خالی کرتا یا دیا سلائی جلاتا تو عظمت Ùˆ برتری Ú©Û’ اØ+ساس Ú©Û’ ساتھ جیسے ایک تجربہ کار تنومند نوجوان ایک نادان کمزور بچی Ú©ÛŒ Ø+فاظت کر رہا ہو۔
صراط مستقیم پر چلنے والے انسان میرے اس فریب Ú©Ùˆ نہ سراہیں تو نہ سراہیں، لیکن میں Ú©Ù… از Ú©Ù… مردوں Ú©Û’ طبقے سے اس Ú©ÛŒ داد ضرور چاہتا ہوں۔ خواتین میری اس Ø+رکت Ú©Û’ لیے مجھ پر دہری دہری لعنتیں بھیجیں Ú¯ÛŒ کہ ایک تو میں Ù†Û’ مکاری اور جھوٹ سے کام لیا اور دوسرے ایک عورت Ú©Ùˆ دھوکہ دیا۔ ان Ú©ÛŒ تسلی Ú©Û’ لیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ یقین مانئے کئی دفعہ تنہائی میں، میں Ù†Û’ اپنے آپ Ú©Ùˆ برا بھلا کہا۔ بعض اوقات اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی۔ ساتھ ہی اس بات کا بھلانا بھی مشکل ہو گیا کہ میں بغیر Ù¾Ú‘Ú¾Û’ ہی علمیت جتاتا رہتا ہوں، میبل تو یہ سب کتابیں Ù¾Ú‘Ú¾ Ú†Ú©Ù†Û’ Ú©Û’ بعد گفتگو کرتی ہے تو بہرØ+ال اس Ú©Ùˆ مجھ پر تفوق تو ضرور Ø+اصل ہے، میں اپنی Ú©Ù… علمی ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ لیکن Ø+قیقت تو یہی نا کہ میں وہ کتابیں نہیں پڑھتا، میری جہالت اس Ú©Û’ نزدیک نہ سہی، میرے اپنے نزدیک تو مسلَم ہے۔ اس خیال سے اطمینان قلب پھر مفقود ہو جاتا اور اپنا آپ ایک عورت Ú©Û’ مقابلے میں پھر Ø+قیر نظر آنے لگتا۔ پہلے تو میبل Ú©Ùˆ صرف Ø°ÛŒ علم سمجھتا تھا۔ اب وہ اپنے مقابلے میں پاکیزگی اور راست بازی Ú©ÛŒ دیوی بھی معلوم ہونے لگی۔
علالت Ú©Û’ دوران میرا دل زیادہ نرم ہو جاتا ہے۔ بخار Ú©ÛŒ Ø+الت میں کوئی بازاری سال ناول پڑھتے وقت بھی بعض اوقات میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ صØ+ت یاب ہو کر مجھے اپنی اس کمزوری پر ہنسی آتی ہے لیکن اُس وقت اپنی کمزوری کا اØ+ساس نہیں ہوتا۔ میری بدقسمتی کہ ان ہی دنوں مجھے خفیف سا انفلوئنزا ہوا، مہلک نہ تھا، بہت تکلیف دہ بھی نہ تھا، تاہم گزشتہ زندگی Ú©Û’ تمام چھوٹے چھوٹے گناہ کبیرہ بن کر نظر آنے Ù„Ú¯Û’Û” میبل کا خیال آیا تو ضمیر Ù†Û’ سخت ملامت کی، اور میں بہت دیر تک بستر پر پیچ Ùˆ تاب کھاتا رہا۔ شام Ú©Û’ وقت میبل Ú©Ú†Ú¾ پھول Ù„Û’ کر آئی۔ خیریت پوچھی، دوا پلائی، ماتھے پر ہاتھ رکھا، میرے آنسو ٹپ ٹپ گرنے Ù„Ú¯Û’Û” میں Ù†Û’ کہا، (میری آواز بھرائی ہوئی تھی) "میبل مجھے خدا Ú©Û’ لیے معاف کر دو۔" اس Ú©Û’ بعد میں Ù†Û’ اپنے گناہ کا اعتراف کیا اور اپنے آپ Ú©Ùˆ سزا دینے Ú©Û’ لیے میں Ù†Û’ اپنی مکاری Ú©ÛŒ ہر ایک تفصیل بیان کر دی۔ ہر اس کتاب کا نام لیا، جس پر میں Ù†Û’ بغیر Ù¾Ú‘Ú¾Û’ لمبی لمبی فاضلانہ تقریریں Ú©ÛŒ تھیں۔ میں Ù†Û’ کہا "میبل، Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ ہفتے جو تین کتابیں تم مجھے دے گئی تھیں، ان Ú©Û’ متعلق میں تم سے کتنی بØ+Ø« کرتا رہا ہوں۔ لیکن میں Ù†Û’ ان کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھا، میں Ù†Û’ کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور کہی ہو گی، جس سے میرا پول تم پر Ú©Ú¾Ù„ گیا ہو گا۔"
کہنے لگی۔ "نہیں تو"۔
میں نے کہا۔ "مثلاً ناول تو میں نے پڑھا ہی نہ تھا، کریکٹروں کے متعلق جو کچھ بک رہا تھا وہ سب من گھڑت تھا۔"
کہنے لگی۔ "کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔"
میں نے کہا۔ "پلاٹ کے متعلق میں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ذرا ڈھیلا ہے۔ یہ بھی ٹھیک تھا؟"
کہنے لگی۔ "ہاں، پلاٹ کہیں کہیں ڈھیلا ضرور ہے۔"
اس کے بعد میری گزشتہ فریب کاری پر وہ اور میں دونوں ہنستے رہے۔ میبل رخصت ہونے لگی تو بولی۔ "تو وہ کتابیں میں لیتی جاؤں؟"
میں Ù†Û’ کہا۔ "ایک تائب انسان Ú©Ùˆ اپنی اصلاØ+ کا موقع تو دو، میں Ù†Û’ ان کتابوں Ú©Ùˆ اب تک نہیں پڑھا لیکن اب انہیں Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ کا ارادہ رکھتا ہوں۔ انہیں یہیں رہنے دو۔ تم تو انہیں Ù¾Ú‘Ú¾ Ú†Ú©ÛŒ ہو۔"
کہنے لگی۔ "ہاں میں تو پڑھ چکی ہوں۔ اچھا میں یہیں چھوڑ جاتی ہوں۔"
اس کے چلے جانے کے بعد میں ان کتابوں کو پہلی دفعہ کھولا، تینوں میں سے کسی کے ورق تک نہ کٹے تھے۔ میبل نے بھی انہیں ابھی تک نہ پڑھا تھا!
مجھے مرد اور عورت دونوں کی برابری میں کوئی شک باقی نہ رہا۔